تیسری قسط:
اِن سائنسی تحقیقی سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے انہوں نے اسلامک بینکنگ سے متعلق دس پیچیدہ ٹرانزیکشن کی صورتحال ان تین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے تشکیل دیں جن میں سلم، استصناع، مرابحہ اور ڈیمینیشنگ مشارکہ وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ اس مقالے کے پہلے مصنف ایک اسلامک بینک کے شریعہ ایڈوائزری یونٹ کے اسسٹنٹ منیجر ہیں اور دوسرے مصنف پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور اسلامک فنائنس پر تحقیق کرتے ہیں، لہٰذا ان دونوں مصنفین نے خود ہی مصنوعی ذہانت سے ان دس بنائی گئی پیچیدہ صورتحال کو جانچا، کچھ ضروری ترامیم کیں اور ضروری تفصیلات شامل کیں۔ پھر ان دس بنائی گئی پیچیدہ صورتحال کو ایک شریعہ اسکالر، ایک اسلامک بینک کے شریعہ بورڈممبر اور ایک اثاثہ مینجمنٹ کمپنی کے شریعہ ایڈوائزر کو دکھایا تاکہ ماہرین کی رائے بھی سامنے آجائے اور ضروری ترمیم کرلی جائے۔ پھر یہ دس صورتحال اسلامک بینک کے شریعہ بورڈ ممبر اور ایک اثاثہ مینجمنٹ کمپنی کے شریعہ ایڈوائزر کو دکھائی گئیں اور ان سے اس کا شرعی حکم (فتویٰ یا شرعی رائے) لے کر اس کو محفوظ کرلیا گیا تاکہ ان جوابات کی روشنی میں مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی صلاحیت کو جانچا جائے۔
پھر ان دس پیچیدہ صورتحال کو ان تین مصنوعی ذہانت کے ماڈلز یعنی چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی اور میٹا اے آئی کو پیش کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ وہ (اوّل) شریعہ کمپلائنس سے متعلق مسائل کی نشاندہی، (دوم) متعلقہ شرعی حوالہ جات و شرعی بنیاد اور (سوم) اسلامک فنائنس کے تناظر میں شریعہ کمپلائنس کے لیے قابلِ عمل اقدامات تجویز دیں۔ اس کے بعد ان دس پیچیدہ صورتحال پر مصنوعی ذہانت کے مہیا کیے گئے جوابات کو شرعی ماہرین کی آراء سے موازنہ کیا گیا۔ یعنی دس پیچیدہ صورتحال ہیں اور ہر صورتحال کا مصنوعی ذہانت کا ماڈل جواب صحیح یا غلط دے گا۔ صحیح جواب دینے پر ایک نمبر اور غلط جواب پر صفر نمبر دیا جائے گا اور پھر فیصدی اعتبار سے ہر ماڈل کے نتائج نکالے جائیں گے۔
‘شریعہ کمپلائنس سے متعلق مسائل کی نشاندہی’ میں چیٹ جی پی ٹی نے 70فیصد، جیمنائی نے 70 فیصد اور میٹا اے آئی نے چالیس فیصددرست جواب دیے۔ ‘متعلقہ شرعی حوالہ جات و شرعی بنیاد’ میں چیٹ جی پی ٹی نے ستر فیصد، جیمنائی نے ستر فیصد اور میٹا اے آئی نے ساٹھ فیصد درست جواب دیے۔ ‘اسلامک فنائنس کے تناظر میں شریعہ کمپلائنس کے لیے قابلِ عمل اقدامات’ چیٹ جی پی ٹی نے پچاس فیصد، جیمنائی نے پچاس فیصد اور میٹا اے آئی نے صفر فیصد درست جواب دیے۔ ان مصنفین نے ان نتائج سے یہ خلاصہ نکالا کہ یہ تینوں مصنوعی ذہانت کے ماڈلز شریعہ ایڈوائزری میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کو ابتدائی اسکرینگ ٹولز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیز ان کی سائنسی تحقیق کے نتائج اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ شریعہ کمپلائنس کے مسائل کی نشاندہی کرسکتے ہیں اور شرعی حوالہ جات بھی فراہم کرتے ہیں جو کہ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی اسلامک فنائنس کی بنیادی تفہیم کی بھی نشاندہی کرتی ہے۔ البتہ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں کچھ خامیاں ہیں اور وہ ہر موقع پر قابلِ عمل اقدامات تجویز نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز شریعہ ایڈوائزری میں معاونت فراہم کرسکتے ہیں مگر ان میں موجود خامیاں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو انسانی نگرانی میں استعمال کیا جائے۔
تبصرہ: مصنف کی جانب سے کی گئی تحقیق اور اس سے حاصل کردہ نتائج میں تکنیکی و سائنسی طور پر کئی نقائص پائے جاتے ہیں۔
اوّل: یہ تحقیقی مقالہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی سے شائع ہونے والے سائنسی جریدے ‘بزنس ریویو’ میں شائع ہوا ہے۔ یہ سائنسی جریدہ ہائیر ایجوکیشن اتھارٹی (ایچ ای سی) کی سائنسی جرائد کی رینکنگ میں ‘وائی’ کیٹیگری میں آتا ہے۔ ایچ ای سی کی سائنسی جرائد کی پالیسی کے مطابق ‘وائی’ کیٹیگری کے سائنسی جرائد سب سے نچلے درجے کے سائنسی جرائد شمار ہوتے ہیں اور عموماً ایچ ای سی کے وائی کیٹیگری کے سائنسی جرائد کی عالمی سائنسی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس مقالے میں کی گئی ‘سائنسی تحقیق’ اور جس سائنسی جریدے میں یہ شائع ہوا ہے اس کے معیار سے قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طرح کی تحقیق کا عالمی معیار کیا ہوگا۔ نیز اس تحقیقی مقالے کے مصنف نے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی سے سنہ 2024ء میں ‘اسلامک بینکنگ اور فنائنس’ میں ماسٹرز کیا ہے اور ان کے ماسٹرز کے مقالے کا موضوع ‘شریعہ ایڈوائزری میں مصنوعی ذہانت (لارج لینگویج ماڈلز) کا استعمال اور ان کی صلاحیت کا اندازہ لگانے’ پر ہے، جس سے قارئین یہ بھی اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ماسٹرز کے لیے لکھے گئے سائنسی مقالوں کا کیا معیار ہے۔
دوم: یہ سائنسی تحقیقی مقالہ سائنسی تحقیقی اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور ایسے مقالے اعلیٰ معیاری سائنسی جرائد میں ہرگز شائع نہیں ہو سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس تحقیقی مقالے میں ”سائنسی تحقیق” نہیں کی گئی۔ آسان الفاظ میں مصنف نے اسلامک فنائنس سے متعلق دس پیچیدہ صورتحال کو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے پوچھا ہے اور اس کی بنیاد پر پورا مقالہ تحریر کرڈالا۔ عالمی مستند معیار سائنسی تحقیق کرنے والے مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور سائنسدان اس طرح کے تحقیق کو سرے سے تحقیق ہی تسلیم نہیں کرتے۔ مزید نقائص ہم پہلے تحقیقی مقالے پر اپنے تبصرہ پر لکھ چکے ہیں جو کہ اس دوسرے تحقیقی مقالے پر بھی کم و بیش لاگو ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)