غزہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ظالم صہیونی افواج کی جانب سے اہلِ غزہ کی نسل کشی کے انسانیت سوز منصوبے پر مسلسل عمل جاری ہے اور روزانہ درجنوں فلسطینی مسجدِ اقصیٰ کے ناموس، فلسطین کی آزادی اور مسلم امہ کے دفاع کی خاطر اپنی جانیں غزہ کی سرزمین پر نچھاور کر رہے ہیں۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ غز ہ کی مزاحمتی تحریک کے مسلح بازو عزالدین قسام بریگیڈ کے ترجمان ابوعبیدہ بھی ایک حملے میں جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں۔ غزہ سے موصول اطلاعات میں ابوعبیدہ کے اہلِ خانہ کی شہادت کی تصدیق کی جا چکی ہے تاہم تادمِ تحریر ابوعبیدہ کی زندگی یا شہادت کے حوالے سے کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی۔ صہیونی، اماراتی اور سعودی میڈیا کی جانب سے ابوعبیدہ کی شہادت کو یقینی خبر کے طورپر نشر کیا جا رہا ہے اور اس عالمی شہرت یافتہ مزاحمت کار کی شہادت کو حماس کا ایک بڑا نقصان قرار دے کر اسرائیل کی فتح کے طور پر نمایاں کیا جا رہا ہے تاہم فلسطینی مزاحمت کا طرز یہ بتاتا ہے کہ اسے شہادتوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اگر ان کا ایک فرد شہید ہوتا ہے تو دوسرا فرد آگے بڑھ کر مزاحمت کا پرچم تھام لیتا ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں یہ امر یقینی ہے کہ تحریک مزاحمت جاری رہے گی اور فلسطین پر قابض صہیونی دہشت گردوں کو زیادہ دیر تک سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں ملے گا۔
غزہ میں جاری مزاحمت، اہلِ غزہ کا صبر و استقامت اور استقلال، تحریک مزاحمت کے قائدین کی شہادتوں کے باوجود جہاد کا تسلسل اور نئی قیادت کی فوری دستیابی اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی دنیا بھر میں مقبولیت فی الواقع حالیہ تاریخ میں ایک معجزہ دکھائی دیتا ہے جس کی عقلی توجیہ شاید آسان نہ ہو۔ قابض صہیونی ٹولے نے غزہ پر جارحیت کا ارتکاب یہ سوچ کر کیا تھا کہ وہ چند دنوں یا چند ہفتوں میں غزہ پر فتح کا جھنڈا گاڑھنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ خود صہیونی حلقوں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ ظالم اور احمق نیتن یاہو دراصل اسرائیل ہی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں صہیونیوں کی شناخت ظلم، فساد اور تشدد کی علامت کے طور پر ہو رہی ہے اور یہ تاثر پھیلتا جا رہا ہے کہ اسرائیل نہ تو کوئی ریاست ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی قوم کی مانند کوئی معاملہ طے کیا جا سکتا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی، بچوں اور خواتین کے قتلِ عام اور عام شہریوں پر بے دریغ بمباری کی وجہ سے دنیا بھر میں اسرائیل کے ساتھ نفرت اور صہیونی کے متعلق حقارت عام چکی ہے۔ دنیا کا ہر وہ شخص جو پہلو میں دل اور دل میں انسانوں کا کچھ بھی درد رکھتا ہے، اس وقت صہیونی ٹولے کو ایک دہشت گرد گروہ خیال کر رہا ہے۔ غاصب ٹولے کے اندر سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اگر اسرائیل کا یہی تاثر قائم رہا تو اسے بطورِ ریاست قائم رکھنا ایک دشوار امر ہو جائے گا۔ یہ آوازیں دراصل اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ اسرائیل کی حیثیت واقعی ایک مکڑی کے جالے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اسے محض امریکا اور دیگر مغربی اقوام کی حمایت اور عرب ریاستوں کی بزدلی اور کمزوری کی وجہ سے ایک ریاست کا درجہ ملا ہوا ہے ورنہ یہ محض دہشت گردی کا ایک نظا م ہے جو نہ کسی اخلاقی جواز یا مذہبی حقیقت کے طورپر قائم ہوا ہے اور نہ ہی وہ کوئی ایسی ریاست ہے جو اپنی بنیادوں پر قائم رہ سکتی ہو۔
اس کے بالمقابل فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کا موقف اخلاق، دین و مذہب اور انسانی اقدار پر قائم ہے اور یہی امر انسانی شرافت، عزت و تکریم اور دیگر اقوام کے ساتھ معاملے میں بنیادی سبب کا درجہ رکھتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت محض ایک قوم کے لیے حقوق کی جنگ نہیں بلکہ ایک تاریخی عمل کا تسلسل، ایک عقیدے اور نظریے کا تحفظ اور ایک ایسی قوم کی عزت و ناموس کی جدوجہد ہے جو ایک شان دار تہذیب، ایک تاب ناک تاریخ اور ایک عظیم علمی ورثہ رکھتی ہے۔ سات عشروں سے زائد دورانیے پر محیط فلسطینی عوام کی جدوجہد نے امتِ مسلمہ کو مسلسل خبردار رکھا ہوا ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر صہیونی دہشت گردوں سے خود محفوظ خیال نہ کرے اور ان کے دامِ فریب سے خود کو بچا کر رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اور بالخصوص غزہ کے عوام ہر قسم کی قربانی دے کر بھی ظالم و دہشت گرد صہیونی طاقت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں اسرائیل کے داخلی وجود میں شکست و ریخت کے آثار پائے جا رہے ہیں۔ صہیونی حلقوں میں اس امر کا ادراک موجود ہے کہ اسرائیل کی سابقہ فتوحات اور معرکہ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز سے قبل ناقابلِ شکست سمجھنے جانے کا تاثر صرف اور صرف مغربی طاقتوں بالخصوص امریکا کی پشت پناہی کی وجہ سے تھا اور جونہی مغربی طاقتوں کی پشت پناہی کمزور ہوئی یا امریکا کسی وجہ سے چند قدم بھی پیچھے ہٹا تو اسرائیل کا ناپاک وجود برقرار نہیں رہ سکے گا۔
تاریخ کے اس معرکة الآراء موقع پر جبکہ اسرائیل کی شکست و ریخت کے حوالے سے عالمی سطح پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلاہے اور تاریخ دان، سیاسی ماہرین اور دفاعی تجزیہ کار اس نکتے پر اتفاق کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ غزہ پر اسرائیل کا تسلط ناممکنات میں سے ہے، ضروری ہے کہ عالمِ اسلام فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کا دست و بازو بن جائے۔ ترکیہ نے بہت تاخیر ہی سے سہی لیکن اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراسم ختم کرنے کا ایک صائب فیصلہ کیا ہے۔ ترکیہ اور بعض عرب ممالک میں شام کے دفاع اور تحفظ کے حوالے سے اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو کہ خوش آئند امر ہے لیکن پاکستان، ترکیہ، قطر اور دیگر ہم خیال ممالک کو چاہیے کہ وہ اہلِ غزہ کے ساتھ تعاون، مزاحمتی تحریکوں کی مدد اور اسرائیل کے مظالم کی روک تھام کے لیے مزید کردار ادا کریں۔ اس وقت عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کا تحفظ غزہ کے استقلال میں پوشیدہ ہے۔ یہ وہ بند ہے جس کا انہدام کم از کم عالمِ عرب کے انہدام کا سبب بن جائے گا۔ مصر کی نام نہاد فوجی طاقت ہو یا سعودی عرب کی دولت و ثروت، یہ مل جل کر بھی صہیونی دہشت گردوں کے فساد کا مقابلہ نہ کر پائیں گے۔ عربوں کو اس امر پر شکر بجا لانا چاہیے کہ اس قدر ذلت و پستی اور نکبت کے دور میں بھی، انہی کے اندر سے ابوخالد محمد الضیف، اسماعیل ہنیہ، ابو ابراہیم یحییٰ السنوار اور ابوعبیدہ جیسے قائدین نے جنم لیا جنھوں نے غزہ کے چھوٹے سے خطے میں حریت اور مزاحمت کی ایسی روح پھونکی جو آج اسرائیل کے وجود کے لیے ایک ناقابلِ شکست چیلنج بن چکی ہے۔ ابوعبیدہ اس دنیا میں موجود ہیں یا نہیں؟ اس سے قطع نظر، پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہ بات سر اٹھا کر جینے کے لائق ہے کہ ان کا تعلق ان بہادر لوگوں کی قوم سے ہے جنھوں نے کسی بھی حال میں ظالم کے سامنے جھکنا، ٹوٹنا اور شکست تسلیم کرنا گوارا نہیں کیا۔