اب توامت مسلمہ کو بیدار ہوجانا چاہیے!

پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اہم ارکان حکومت کے ہمراہ قطر کا ایک روزہ دورہ مکمل کرکے واپس وطن پہنچ چکے ہیں۔ یہ دورہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے تناظر میں خصوصی دعوت پر کیا گیا تھا۔ پاکستان اور قطر کے حکمرانوں کے مابین کیا امور طے پائے؟اس متعلق کوئی غیر معمولی اطلاع تاحال سامنے نہیں آئی تاہم وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قطر کو پاکستان کی مکمل حمایت اور کسی بھی جارحیت کی صورت میں مکمل تعاون کی یقین دہائی کروائی ہے۔آنے والے چند ہی دنوں میں قطر پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے عرب ریاستوں کا ایک غیر معمولی اجلاس متوقع ہے جبکہ او آئی سی کا اجلاس بھی طلب کیا جارہا ہے ۔ممکن ہے کہ عرب حکمرانوں کو قطر پر حملے سے اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا کچھ ادراک ہوچکا ہوتاہم پاکستان نے دہشت گرد اسرائیل کے خلاف سفارتی محاذ پر بڑی حد تک اپنا کردار ادا کیاہے اور اگر عرب ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون اور اشتراک پر رضا مند ہوجائیں تو پاکستان اور ترکیہ مل کر دہشت گردی کے اس اڈے کا ناطقہ بند کرسکتے ہیں ۔قابض اسرائیل کے مجرم حکمران کی ڈھٹائی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ اب وہ کھل کر ارد گرد کی ریاستوں کو مزید حملوں کی دھمکیاں دے رہاہے اور اس نے جارحیت اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید بستیوں کے قیام کی منظوری دے دی ہے ۔یہ اقدام دنیا کوایک کھلا چیلنج ہے کہ اسرائیل نامی قبضہ کسی بھی عالمی ،سفارتی اور اخلاقی ضابطے کو تسلیم نہیں کرتا۔ قبضے کی اس ڈھٹائی کے خلاف فلسطینی مزاحمت وہ واحد رکاوٹ ہے جس نے ان دہشت گردوں کے عزائم کو کسی نہ کسی حد تک روک رکھاہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرب ریاستیں اس کھلی توہین کو ایک مرتبہ پھر ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرلیں گی ؟بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قطر کی قیادت جو کہ متعدد اقدامات کی بنا پر دیگر عرب ریاستوں سے قدرے مختلف دکھائی دیتی ہے ، اس موقع پر ایسے اقدامات ضرور اٹھائے گی جوخطے کے حالات میں عمومی نہ سہی لیکن جزوی تبدیلیوں کا سبب ثابت ہوں گے۔

فی الواقع قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے نے بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ یہ حملہ، جو بظاہر حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی ایک ناکام کوشش تھی، نہ صرف قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی سفارت کاری اور امن کی کوششوں پر ایک حملہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قطر غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے کلیدی ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب سفارتی کوششیں جاری ہوں، ایک فریق کا اس طرح سے دوسرے فریق کی قیادت پر حملہ کرنا دراصل امن کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے۔ قطر کے وزیراعظم نے اسے سفارت کاری کی توہین قرار دیا ہے اوردنیا کے بیشترممالک نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔اس مسئلے پر منعقد ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کے مندوب نے قبضے کے جرائم کو کھل کر بیان کیا جس کے بعد اجلاس نے ایک متفقہ مذمتی بیان جاری کیا، جس میں امریکہ کی حمایت بھی شامل ہے۔ مبصرین کے مطابق ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام عالمی سطح پر قابل قبول نہیں ہے لیکن سفارت کاری سے ہٹ کر دفاع کے اپنے تقاضے بھی ہیں جن کا خیال کیے بغیر عرب ریاستیں قبضے کے کینسر سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکیں گی ۔ اس کینسر کا علاج ایک بڑی سرجری ہے جس کے لیے عرب ریاستوں کو بہرحال پاکستان اور ترکیہ کے ساتھ اشتراک کرنا ہی ہوگا۔ دوسری کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی ۔

دراصل قطرپرہونے والے اس حملے کو صرف ایک انفرادی واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔قطر کے بعد کویت یا اردن کسی بھی ریاست کی باری آسکتی ہے ۔ عرب تجزیہ کاروں کے مطابق قطر پر قبضے کا حملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی فوجی ناکامی کی بھی علامت ہے۔ اگر اسرائیل میدان جنگ میں حماس کو شکست دینے میں کامیاب ہوتا، تو اسے بیرونِ ملک حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس حملے کا مقصد فلسطینیوں کی قیادت کو ختم کرکے ان کی مزاحمت کو توڑنا تھا۔ عرب مبصرین کے مطابق اس حملے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام ممالک، جن میں عرب اور مسلم دنیا بھی شامل ہے، جو اپنی سلامتی کے لیے مغربی دفاعی نظام پر انحصار کرتے ہیں، درحقیقت ایک ایسے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جو ان کی اپنی خودمختاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکی ساختہ دفاعی نظام اسرائیل کی فضائی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوا ہے، جس سے ان تمام سوالات کو تقویت ملتی ہے کہ کیا یہ نظام خاص طور پر اسرائیل کے حملوں کو نظر انداز کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے؟

اس سوال نے عرب ممالک کے دفاعی نظام پر شکوک و شبہات مزید گہرے کردیے ہیں۔اگر مسلم امہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا کھل کر ساتھ دیتی تو آ ج عرب ریاستوں کی دفاعی صلاحیت کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا نہ ہوتے جو کچھ نہ کرنے کی صورت میں مزید گہرے ہوتے چلے جائیں گے اور عرب ریاستوں پر اسرائیل کے حملے ایک معمول بن جائے گا۔ مسلسل دھوکہ کھانے کے بعد اب سبق سیکھ لینا چاہیے ۔ پانی سر سے گزرنے سے قبل مسلم امہ کے پاس بہت سے ایسے راستے ہیں جو وہ استعمال کر سکتی ہے، جیسے کہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معمول پر لائے گئے تعلقات کو ختم کرنا، اقتصادی پابندیاں عائد کرنا اور اپنی فضاؤں کا استعمال روکنا۔ یہ اقدامات اسرائیل پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ ڈالنے کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کی جارحانہ پالیسیوں کو روک سکتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کو مغربی دفاعی نظام پر انحصار کو ترک کرکے ایک خود مختار اور مشترکہ دفاعی اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ قطر، ترکی، اور پاکستان جیسے ممالک کے درمیان فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کو بڑھانا ایک عملی قدم ہو سکتا ہے۔ یہ اتحاد نہ صرف مسلم ممالک کو بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے گا بلکہ یہ خطے میں طاقت کا نیا توازن بھی قائم کرے گا۔اب امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے، کیونکہ دشمن کے نزدیک کوئی ریڈ لائن یا خطِ امتیاز نہیں ہے، اور وہ جہاں چاہے حملہ کرنے کی جرات رکھتا ہے۔ اگر عرب اور مسلم ممالک نے اپنی حفاظت کے لیے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات نہ کیے، تو ذلت اور توہین میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔