نئی آبی منصوبہ بندی ناگزیر ہے

پنجاب میں حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر ملک کی پانی اور انتظامی صورتحال کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جان لیوا اور تباہ کن بارشوں کے ساتھ ساتھ بھارت کی طرف سے دریاؤں میں پانی کا بلا روک ٹوک اخراج پنجاب کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوا۔ بھارت سے آنے والے تین دریاؤں چناب، ستلج اور راوی میں شدید طغیانی کے باعث پنجاب کے ہزاروں دیہات زیر آب آگئے، کھڑی پکی فصلیں تباہ ہوگئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر رہ گئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قدرتی آفات کے باوجود اصل زخم ہماری ناقص تیاری اور حکومتی عدم توجہی کا بھی ہے، جو ہر سال ان نقصان دہ واقعات کو دہراتی رہتی ہے اور ان کے المیے میں اضافہ کرتی ہے۔ بھارت کی جانب سے ڈیموں سے اضافی پانی چھوڑنے کا عمل ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جس کا ہمیں سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھرپور جواب دینا ہوگا، تاہم اس بیرونی چیلنج کے باوجود ہمارے پانی کے ذخائر اور سیلاب کنٹرول کرنے کے نظام کی حالت بھی بہت مخدوش بلکہ ایسا کوئی نظام سرے سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت نے بغیر کسی رکاوٹ کے پانی ہماری طرف بہایا، جس سے پانی کو کنٹرول کرنے کے وسائل کم پڑ گئے۔ دریائے چناب پر قادرآباد بیراج میں دراڑ پڑنے کا خطرہ اتنا بڑھ گیا کہ بعض مقامات پر مجبوراً دریا کے کنارے توڑ کر پانی کا بہاؤ تبدیل کرنا پڑا، ورنہ قریبی شہروں کے بھی زیر آب آجانے کا خدشہ تھا۔ برسوں سے پانی کے ذخائر بڑھانے، ڈیم بنانے اور جدید نظام تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے لیکن عملی اقدامات یا تو آہستہ ہیں یا غیر مؤثر۔ جہاں حکومت نے کچھ بیراجوں کی مرمت اور ندی نالوں کی صفائی کی کوششیں کیں، وہ بھی ناکافی تھیں۔یہ تاثرعام ہے کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر سیلابی صورتحال کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ مزید یہ کہ دریا کے راستوں میں غیر قانونی تعمیرات، دریاؤں کے کنارے تجاوزات اور ندی نالوں میں کچرے کا جمع ہونا بھی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتا رہا، جو سیلاب کی شدت کو بڑھاتا ہے۔ عوام کی جانب سے بھی غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔ سیلاب کے خطرات کے باوجود حفاظتی احتیاطی تدابیر نہ کرنے، غیر قانونی باغات اور عمارتیں بنانے اور وقتی خبردار کرنے والے نظام کو نظر انداز کرنے کے نتائج ہم نے حالیہ دنوں میں دیکھے۔ حکومت کی ہدایات کو سنجیدگی سے نہ لینا، ندی نالوں کی صفائی میں تعاون نہ کرنا اور شہری منصوبہ بندی کی خلاف ورزیاں، سب مل کر ہلاکت خیزی کو بڑھاتی ہیں۔

نیدرلینڈز جیسا ماڈل اپنانا پنجاب کے لیے ضروری ہے۔ وہاں پانی کو روکنے اور کنٹرول کرنے کے لیے جدید ڈیم، بیراج، اور قدرتی ”وائیڈ گرین ڈائیکس” جیسے نظام ہیں جو سیلاب کے پانی کو جذب کرتے اور محفوظ طریقے سے بہنے دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی فوری طور پر اس سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں جہاں بڑے ڈیم بنانا دشوار یا سیاسی طور پر متنازع ہے، وہاں نئے بیراجوں کی تعمیر اور موجودہ بیراجوں کی اپ گریڈیشن پر کام کرنا چاہیے تاکہ پانی کی بڑی مقدار کو سنبھالا جا سکے۔ ساتھ ہی نہری نظام کی تشکیل نو کرنی ہوگی تاکہ پانی کا بہاؤ مؤثر اور منظم ہو۔ نئی بڑی نہریں نکال کر نہ صرف زراعت کو سہارا دیا جا سکتا ہے بلکہ سیلابی پانی کو محفوظ طریقے سے نکالنا بھی ممکن ہوگا۔

معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم پانی کے نظام کی از سر نو منصوبہ بندی کریں۔ بہتر پانی کی منصوبہ بندی سے ہم نہ صرف سیلاب کے نقصان کو کم کر سکیں گے بلکہ زراعت کو بھی مستحکم بنیادوں پر قائم رکھ سکیں گے۔ پنجاب جیسا زرعی صوبہ اگر پانی کے نظم و نسق میں ناکام ہو جائے تو یہ پورے ملک کی خوراکی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آبی اصلاحات صرف پنجاب کا نہیں بلکہ قومی سطح کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ مزید برآں حکومت کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو اپناتے ہوئے سیلاب کیلئے پیشگی اطلاع کا موثر نظام متعارف کرائے، تاکہ عوام کو بروقت اور درست معلومات فراہم کی جائیں اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔ اس کے لیے موبائل ایپلی کیشنز، کمیونٹی ریڈیو اور مقامی رضاکار نیٹ ورکس کو فعال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آبادی پر اثر انداز ہونے والے ندی نالوں کی صفائی اور ان کی مانیٹرنگ کو یقینی بنایا جائے تاکہ پانی کا بہاؤ قدرتی انداز میں اور بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں عموماً سیلاب کے بعد امدادی کاموں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، لیکن اصل ضرورت پیشگی تیاری کی ہے۔ اگر نیدرلینڈز جیسا ماڈل اختیار کیا جائے تو وہاں کی طرح ”واٹر بورڈز” تشکیل دیے جا سکتے ہیں جو صرف پانی کے بہاؤ، فلڈ کنٹرول اور ڈرینیج کے نظام پر نظر رکھیں۔ ان بورڈز میں حکومتی نمائندوں کے ساتھ کسان، ماہرینِ ماحولیات، اور مقامی برادریوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ فیصلے زمینی حقیقت کے مطابق ہوں۔ سیلابی پانی کو اگر ضائع ہونے کی بجائے ری چارجنگ پوائنٹس اور مصنوعی جھیلوں میں محفوظ کیا جائے تو نہ صرف زیر زمین پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ خشک سالی کے خطرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ماڈل وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں کامیابی سے آزمایا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی اگر بروقت اس حکمتِ عملی کو اختیار کرے تو مستقبل میں پانی کی کمی جیسے بڑے بحران سے بچ سکتا ہے۔