یہ دنیا اس وقت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ عرب کے ریگزاروں میں جہالت کی آندھیاں چل رہی تھیں، بت پرستی عام تھی، کمزوروں کو کچلا جاتا۔ عورتیں بے توقیر سمجھی جاتیں اور خانہ کعبہ میں پتھر کے بے جان بتوں کو معبود بنا کر پوجا جاتا۔ مگر اسی ماحول میں ایک ایسا چراغ روشن ہونے والا تھا جس کی روشنی قیامت تک انسانیت کا راستہ منور کرنے والی تھی۔ یہ چراغ محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں تھا۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی رہی کہ اس کے تمام انبیاء عام انسانوں کی طرح ہوں مگر دلوں کو اجالنے اور معاشروں کو بدلنے کے لیے غیرمعمولی صفات کے حامل ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی سنت کے مطابق دنیا میں تشریف لائے۔ آپ نے عام انسانوں کی طرح زندگی گزاری۔ خوشی اور غم کے ذائقے چکھے۔ بھوک اور پیاس محسوس کی۔ محنت مزدوری کی اور معاشرے کا حصہ بن کر اپنے کردار سے دنیا کو یہ سکھایا کہ عظمت کا اصل معیار اخلاق اور کردار کی بلندی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے معزز اور محترم خاندان بنوہاشم میں پیدا ہوئے۔ یہ اللہ کا خاص انتخاب تھا کہ اپنے محبوب نبی کو ایک ایسے گھرانے میں بھیجا جو شرافت، امانت اور عزت میں سب سے نمایاں تھا۔ آپ نے ایک موقع پر خود فرمایا: اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے سب سے بہتر گروہ میں پیدا کیا، پھر ان میں سب سے بہتر خاندان میں رکھا اور میں نسب اور گھرانے کے اعتبار سے سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی) یہی وجہ تھی کہ مشرکینِ مکہ نے آپ پر بہت سے الزامات لگائے لیکن آپ کے نسب اور خاندان کے بارے میں کبھی زبان درازی نہ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعور کی آنکھ کھولی تو والد کی محبت پہلے ہی چھن چکی تھی اور چھ سال کی عمر میں والدہ بھی رخصت ہوگئیں۔ یتیمی کے اس کربناک احساس نے آپ کے دل کو صبر اور حوصلے سے بھردیا۔ چچا ابوطالب نے آپ کی پرورش کی مگر زندگی کے نشیب و فراز نے بچپن ہی سے آپ کو مضبوط اور بُردبار بنا دیا۔ ابتدائی سال صحرائے بنوسعد کی پاکیزہ فضا میں گزرے۔ وہاں کی سادہ زندگی، شفاف آسمان اور تازہ ہوا نے آپ کی طبیعت کو مضبوط اور فطرت کو پاکیزہ بنا دیا۔ زبان میں فصاحت، لہجے میں نرمی اور دل میں وسعت آپ کے بچپن سے ہی نمایاں ہونے لگے۔ بزرگ آپ کے چہرے پر غیرمعمولی عظمت کے آثار محسوس کرتے اور دل ہی دل میں سوچتے کہ یہ بچہ عام نہیں ہے۔
بچپن میں آپ نے بکریاں چَرائیں تاکہ اپنے چچا ابوطالب کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔ یہی پیشہ آپ سے پہلے تمام انبیاء نے بھی اختیار کیا تھا تاکہ صبر، نرمی اور عاجزی جیسی صفات پیدا ہوں جو بعد میں دعوت اور اصلاح کے سفر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ جوانی کی دہلیز پر پہنچے تو تجارت میں قدم رکھا۔ قافلوں کے ساتھ شام کے سفر کیے اور جلد ہی اپنی سچائی اور امانت داری سے لوگوں کا اعتماد جیت لیا۔ یہی وہ اوصاف تھے جنہوں نے آپ کو ‘الصادق الامین’ کا لقب دیا۔ اسی شہرت نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو متاثر کیا اور انہوں نے اپنی تجارت آپ کے سپرد کی۔ آپ نے ایمانداری اور محنت سے ان کا سرمایہ بڑھایا اور یہی تعلق بعد میں مقدس رشتے میں تبدیل ہوا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کے بعد نبوت کے ابتدائی اور کٹھن دور میں آپ کا بے مثال ساتھ نبھایا۔ جب مکہ کے نوجوان کھیل، لہو و لعب اور برائیوں میں مبتلا تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاکیزگی میں سب سے منفرد تھے۔ نہ آپ نے کبھی شراب کو چھوا، نہ بتوں کو سجدہ کیا، نہ فحش کلامی اور نہ قماربازی میں شریک ہوئے۔ یہی بے داغ کردار وہ بنیاد تھی جس نے آپ کو لوگوں کی نظروں میں ممتاز بنا دیا اور جس پر بعد میں دعوتِ حق کی عمارت کھڑی ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے کے عام معاملات میں سرگرم رہے۔ کم عمری میں ہوازن کے حملے کے وقت آپ نے اپنے چچاؤں کے ساتھ کام کیا۔ تیر پکڑانے جیسی خدمات انجام دیں۔ جوانی میں آپ حلف الفضول جیسے معاہدے میں شریک ہوئے جو مکہ کے چند قبائل کے درمیان مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کا مقابلہ کرنے کا عہد تھا۔ آپ نے بعد میں فرمایا: میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا جس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تو میں اسے نہ چھوڑوں گا اور اگر اسلام میں بھی مجھے اس کی طرف بلایا جائے تو میں لبیک کہوں گا۔
پینتیس برس کی عمر میں جب بارش اور سیلاب سے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ حجرِاسود رکھنے پر جب قبائل میں جھگڑا ہونے لگا تو آپ نے نہایت حکمت سے معاملہ سلجھایا: ایک چادر بچھوائی، اس پر پتھر رکھا اور کہا کہ ہر قبیلہ ایک کونہ پکڑ لے۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے حجرِاسود کو اپنی جگہ نصب کیا اور ایک بڑے فتنے کو ٹال دیا۔ اگرچہ آپ اپنی قوم کے ساتھ رہتے اور ان کے ساتھ کام کرتے، لیکن ان کی بت پرستی، فحاشی اور گمراہی سے آپ کا دل بیزار رہتا۔ یہی بے چینی آپ کو خلوت کی طرف لے گئی۔ آپ اکثر غارِ حرا میں کئی کئی دن اور راتیں عبادت اور غور و فکر میں گزارتے۔ یہ تنہائی کا وقت آپ کے دل کو مزید پاکیزہ کرنے اور اللہ کی محبت میں راسخ کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ یہ روحانی تیاری اللہ کی طرف سے اس عظیم ذمہ داری کا پیش خیمہ تھی جو جلد ہی آپ کے سپرد ہونے والی تھی اور پھر وہ لمحہ آیا جس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ جب چالیس برس کی عمر میں غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی اور وہ یتیم بچہ جو کبھی مکہ کے ریگستان میں بکریاں چَرایا کرتا تھا’ پوری انسانیت کا نجات دہندہ بن گیا۔ بعثت سے پہلے کی یہ زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ عظمت محض ظاہری جاہ و جلال میں نہیں بلکہ کردار کی بلندی، امانت، محنت اور صبر میں پوشیدہ ہے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا ہر لمحہ ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم اپنے کردار کو نکھار لیں تو دنیا کا سب سے تاریک ماحول بھی ہماری روشنی سے جگمگا سکتا ہے۔