آکلینڈ/برلن/رباط/طرابلس/غزہ/تل ابیب/ریاض:دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں عوام نے غزہ میں قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر مسلط کی گئی نسل کشی اور اجتماعی درندگی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔
ہفتہ کے روز نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے غزہ پر مسلط اسرائیلی نسل کشی اور قحط آمیز جنگ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیاساتھ ہی انہوں نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ قابض اسرائیل پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں بھی پندرہ ہزار افراد نے ایک بڑے احتجاج کے لیے اپنے نام درج کروائے ہیں۔ یہ مظاہرہ ”غزہ میں نسل کشی بند کرو” کے نعرے کے تحت نکالا جا رہا ہے۔جرمن رکن پارلیمان سارہ واگنکنیشت جو اس مظاہرے کے منتظمین میں شامل ہیں، نے کہا کہ کسی حکومت پر تنقید کو یہودی دشمنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مراکش کے مختلف شہروں میں عوامی اجتماعات منعقد ہوئے جن میں قابض اسرائیل کی درندگی کی مذمت کی گئی۔رباط میں سینکڑوں افراد پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوئے جنہوں نے قابض اسرائیل کے جنگی جرائم پر اس کے رہنماؤں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔
لیبیا میں دارالحکومت طرابلس کے مشرقی علاقے تاجوراء میں بھی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے اسطول الصمود کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا جو تیونس کے شہر بنزرت سے محصور غزہ کی طرف روانہ ہونے والا ہے۔لیبیائی مظاہرین نے قابض اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ کے تسلسل پر شدید احتجاج کیا۔
دریں اثناء غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے خون کی ہولی کھیلنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے، تازہ حملوں میں مزید 65 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔عرب خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہید ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے14 افراد بھی شامل تھے۔
رپورٹس کے مطابق قابض فوج نے غزہ میں 2 مکانات کو بمباری کرکے تباہ کردیا جبکہ پناہ گزین کیمپ میں ایک اسکول پر بھی حملہ کیاگیااس اسکول میں بے گھر فلسطینی پناہ لئے ہوئے تھے۔فلسطینی وزارت صحت نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیل کے مسلط کردہ قحط اور بھوک کی وجہ سے مزید 7 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں جن میں 2 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
وزارت صحت کے بیان میں بتایا گیا کہ اس بھوک اور غذائی قلت کے نتیجے میں شہداء کی مجموعی تعداد بڑھ کر 420 ہو گئی ہے جن میں 145 بچے شامل ہیں۔غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کے حملوں میں شہدا کی مجموعی تعداد 64 ہزار 756 ہوگئی جبکہ ایک لاکھ 64 ہزار 59 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے مغربی کنارے میں بھی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے، فلسطینیوں کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مار کر 1500 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کرلیاگیا جبکہ حماس نے گرفتاریوں کو اجتماعی سزا اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف قرار دیدیا۔
ایک بیان میں کہاگیا کہ یہ چھاپے اور گرفتاریاں اسرائیل کے علاقے میں کنٹرول کھونے کی حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔غزہ کی پٹی میں سرکاری میڈیا دفتر نے ہفتے کے روز بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے صرف ایک ماہ میں 1600 رہائشی عمارتیں اور 13 ہزار خیمے تباہ کر دیے جو بے گھر فلسطینیوں کا سہارا تھے اور اس درندگی کے نتیجے میں 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد شہریوں کو مشرقی محلوں سے شہر کے وسط اور مغربی حصوں کی طرف زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔
یہ تباہی 11 اگست کو شروع ہونے والے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد سے جاری ہے۔بیان میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل نے شہر کے رہائشی محلوں کو وحشیانہ انداز میں نشانہ بنایا ہے جو دراصل منظم تباہی، اجتماعی قتل عام، نسل کشی اور جبری بے دخلی کی پالیسی کا حصہ ہے جو اس نے اپنی زمینی کارروائی کے آغاز سے اختیار کر رکھی ہے۔
ستمبر کے آغاز سے ہی قابض اسرائیل نے 70 ٹاور اور عمارتیں مکمل طور پر مٹا دی ہیں اور 120 کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ادھر اسرائیل کے تمام اعلیٰ سیکورٹی حکام نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو خبردار کیا ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ادارے نے بتایا کہ اگرچہ نیتن یاھوکا ان وارننگز کے باوجود اصرار تھا کہ وہ فوجی کارروائی کی منظوری دیں تاہم حکام کا کہنا تھا کہ غزہ پر قبضہ طویل وقت لے گا اور اس دوران قیدیوں کی زندگیاں شدید خطرے میں پڑ جائیں گی۔
مزید یہ کہ شہر کو مکمل طور پر خالی نہیں کرایا جا سکے گا بلکہ انتظامیہ کو وہاں حکمرانی مسلط کرنا پڑے گی۔ نیتن یاھو کی زیرصدارت سکیورٹی کابینہ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جو تقریبا 5 گھنٹے جاری رہا۔ اس اجلاس میں وزرا، فوجی اور سیکورٹی کمانڈرز شریک تھے۔
اس کا ایجنڈا صرف غزہ پر قبضے کی تیاریوں پر مرکوز تھا۔ تاہم اجلاس کے نتائج یا کسی حتمی فیصلے کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔دوسری جانب سعودی عرب میں وزارت خارجہ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے برادر اسلامی ملک قطر کے خلاف دیے گئے جارحانہ بیانات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
سعودی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب برادر ملک قطر کے ان تمام اقدامات کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتا ہے جو وہ اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے اٹھا رہا ہے۔بیان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے حالیہ بیانات بین الاقوامی قوانین اور عالمی روایات کی مسلسل خلاف ورزیاں تشویش کا باعث ہیں۔
دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی ادارے نے امریکا اور اسرائیل کے غزہ میں خوراک تقسیم کرنے والے ادارے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے امدادی مراکز پر اسلام مخالف بائیکر گینگ کو سیکورٹی پر مامور کردیاہے۔
رپورٹ کے مطابق ان امدادی مراکز میں امریکی کنٹریکٹرز نے اسلام مخالف بائیکر گینگ ”انفیڈلز ایم سی کے کارندوں کو تعینات کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم دشمن نظریات رکھنے والے اس خطرناک گینگ کے 10 سے زائد ارکان کو امریکی کمپنی یو جی سلوشنز نے بھرتی کیا ہے۔
اب اس گینگ کے ارکان غزہ ہیومینیٹیریئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے مراکز پر تعینات ہوں گے اور ان میں سے کم از کم 7 ارکان سینئر عہدوں پر فائز ہیں۔اسرائیل نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حماس کے بغیر فلسطینی ریاست کے حق میں جو ایک شرمناک ووٹ دیا ہے، اس سے گروپ کو غزہ جنگ جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا اسرائیل اس اعلان کو مکمل طور پر مستردکرتا ہے اور انہوں نے رائے شماری کو اس بات کا ثبوت قرار دیا کہ جنرل اسمبلی حقیقت سے ماورا ایک سیاسی سرکس بن چکی ہے۔
ادھریمن کی مسلح افواج نے ہفتے کی صبح ایک ہدفی فوجی کارروائی میں ہائپرسونک بیلسٹک میزائل”فلسطین 2فائر” کیا اور قابض یافا کے علاقے میں چند حساس مقامات کو نشانہ بنایا۔ یمن کی یہ کارروائی براہِ راست غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی اور قابض ریاست کی درندگی کے جواب میں کی گئی۔
یمنی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر یحییٰ سریع نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ میزائل فورسز نے یہ آپریشن انجام دیا اور اللہ کے فضل سے اپنے اہداف حاصل کیے جن کے نتیجے میں لاکھوں قابض صہیونی دشمنوں کو پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ترجمان نے اسے فلسطینی قوم اور اس کے مجاہدین کے حق میں ایک فتح قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام قابض ریاست کی غزہ میں جاری نسل کشی،قحط اور اجتماعی سزا کے جرائم کے ردعمل میں کیا گیا۔
علاوہ ازیں قابض اسرائیلی افواج نے 13 فلسطینی اسیران کو رہا کر دیا جنہیں وہ غزہ کی پٹی سے 7 اکتوبر2023ء سے جاری نسل کشی کی جنگ کے دوران گرفتار کر کے قید میں ڈالے ہوئے تھے۔ان اسیران کو کئی ماہ بعد کِسوفیم چوکی کے راستے رہا کیا گیا۔
رہائی کے وقت ان کی حالت نہایت تشویشناک تھی کیونکہ قید کے دوران انہیں بدترین اور غیر انسانی حالات کا سامنا رہا۔مقامی ذرائع کے مطابق بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کی گاڑیاں ان اسیران کو وسطی غزہ کے سرکاری ہسپتال ”شہدائے اقصیٰ” لے گئیں۔