دوسری قسط:
جب اس مرحلے میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو سودے بازی پر آگئے۔ جب دیکھا کہ ہم روکنے میں کامیاب نہیں ہورہے تو مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ اسی مرحلے کے بارے میں قرآن کریم میں ہے ”ودّوا لو تدھن فیدھنون” (سورہ القلم ٩) جناب ابو طالب کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صلح کرنے کے لیے ستر سرداروں کا وفد آیا کہ جناب آپ ہماری ان سے صلح کرا دیں۔ ان کی پیشکش یہ تھی کہ ٹھیک ہے وہ بھی حرم پاک میں عبادت کریں، ہم بھی کرتے ہیں۔ ہم ان کو نہیں روکتے، وہ ہمیں نہ روکیں۔ حرمِ مکہ میں آپ عبادت کریں ہم بھی ان کے ساتھ مل کر کر لیا کریں گے اور کبھی آپ ہمارے پاس آ جایا کریں، مل جل کر گزارہ کرتے ہیں۔ آپ جو چاہیں کریں ہم ان کو نہیں روکتے لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ آپ ہمارے خداؤں کی نفی نہ کریں۔ توحید کی بات ضرور کریں لیکن ہمارے بتوں کی نفی نہ کریں یعنی آج کی اصطلاح میں ”پازیٹو بات کریں، نیگیٹو نہ کریں۔”
آج بھی بین الاقوامی مکالموں میں یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ مسلمان پازیٹو بات کریں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، جب نیگیٹو بات کرتے ہیں تو ہمیں اشکال ہوتا ہے۔ مسلمان یہ کہیں کہ اسلام بہت اچھا مذہب ہے ہمیں کوئی اشکال نہیں، لیکن یہ نہ کہیں کہ عیسائیت صحیح مذہب نہیں ہے، اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ مسلمان اسلام کی دعوت دیں لیکن یہودیت، ہندومت اور دیگر مذاہب کی نفی نہ کریں۔ ایک دفعہ مذاکرے میں مجھ سے سوال کیا گیا کہ مولانا! کیا اس میں کچھ لچک ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا ہم کیا لچک کریں گے ہمارے کلمہ کا پہلا لفظ ہی نیگیٹو ہے یعنی ”لا الٰہ”۔ پازیٹو کا ذکر تو بعد میں آتا ہے یعنی ”الا اللہ” ہمارا سبق شروع ہی لائے نفی جنس سے ہوتا ہے جو ہر چیز کی نفی کر دیتا ہے، ہم کیسے لچک کر سکتے ہیں؟ سیرت و حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں آپ کو ملے گا کہ مشرکین مکہ کا یہی مطالبہ تھا کہ آپ اللہ کی بات کریں اور اس کی عبادت کریں لیکن ہمارے بتوں کی نفی نہ کریں۔ یعنی ”لا الٰہ” کی بات نہ کریں ”الا اللہ” کی بات کرتے رہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلکہ قرآن مجید نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور اسی کے جواب میں سورہ الکافرون نازل ہوئی جس میں فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا، بارگیننگ نہیں چلے گی، تم نہیں مانتے تو نہ مانو۔
قرآن کریم نے ایک اور بھی دلچسپ بات ذکر کی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں کو قرآن کریم سناتے تو ایک موقع پر کفار نے یہ پیشکش کی کہ ٹھیک ہے ہم قرآن کو مانتے ہیں لیکن آپ یہ کریں کہ قرآن میں کچھ ترمیم اور ردوبدل کر دیں۔ قرآن مجید میں ہے ”واذا تتلٰی علیھم آیاتنا بینات قال الذین لا یرجون لقآئنا ائت بقرآن غیر ھذا او بدلہ” جب ان کو قرآن سنایا جاتا ہے تو جن کا آخرت پر یقین نہیں وہ کہتے ہیں کہ یا تو پورا قرآن بدل دیں ”اِئت بقرآن غیر ھذا” اس کی جگہ کوئی اور قرآن لائیں کہ اس قرآن کے احکام بڑے سخت ہیں، اس لیے یہ قابل قبول نہیں، ورنہ کچھ ترامیم تو ضرور کریں ”او بدلہ”۔ اللہ تعالی کو علم تھا کہ یہ مسئلہ قیامت تک چلنا ہے، اس لیے اس کا جواب بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی قرآن کریم میں دلوا دیا۔ ہمیں زحمت نہیں دی کہ ہم سوچیں کیا جواب دینا ہے۔ جواب یہ دیا ”قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی” آپ کہہ دیجیے کہ مجھے سرے سے اس میں ردوبدل کا کوئی اختیار ہی نہیں، اللہ چاہے تو بدل دے کہ وحی جاری تھی، مگر میں اس میں ایک حرف کا ردوبدل بھی نہیں کر سکتا۔ اس کا اتنا جواب ہی کافی تھا لیکن اس جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تاکید کے لیے اگلا جملہ بھی ساتھ کہلوا دیا ”ان اتبع الا ما یوحٰی الیّ” اس میں حصر ہے کہ میں تو صرف اور صرف وحی کا پابند ہوں اور اس کے بعد ایک جملہ اور بڑھا دیا ”انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم” (سورہ یونس ) کہ مجھے ڈر لگتا ہے اگر خدانخواستہ مجھ سے یہ کام ہو گیا تو قیامت کے دن کے عذاب سے مجھے کون بچائے گا؟
یہ ترمیم اور ردوبدل کا مطالبہ آج بھی چلتا رہتا ہے۔ بعض دانشور حضرات کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک گفتگو میں ایک صاحب فرمانے لگے کہ مولوی صاحب! کچھ تو کرنا ہی پڑے گا، عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے کوئی بات تو ماننا ہی پڑے گی، اس کے بغیر تو ہم عالمی برادری کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکتے۔ جب انہوں نے بات مکمل کر لی تو میں نے کہا جناب! ٹھیک ہے پہلے ہم ایجنڈا بنا لیتے ہیں کہ آج کی دنیا کے مطالبات پورے کرنے کے لیے ہمیں کہاں کہاں اور کیا کیا ترامیم کرنی ہیں؟ اس کی تیاری میں آپ کے ساتھ شریک ہوں گا بلکہ آپ سے اچھا مسودہ بنا لوں گا کہ کہاں کہاں ترمیم کرنی پڑے گی، مثلاً مغرب کا مطالبہ ہے عورت کو طلاق کا برابر کا حق دو اور مرد و عورت میں کوئی فرق نہ کرو۔ اب عورت کو طلاق کا حق دینے کے لیے ترمیم کہاں کرنا ہو گی؟ ہدایہ کی عبارت میں؟ کسی امام کے قول میں؟ نہیں! بلکہ نعوذ باللہ یہ ترمیم قرآن کریم میں کرنا ہو گی۔ اس لیے ترمیم کہاں کہاں ہونی چاہیے، پہلے اس کی فہرست بناتے ہیں، لیکن ترمیم کرنی کس نے ہے؟ ہم کس کو درخواست دیں گے کہ جناب ترمیم کر دیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو درخواست دینی ہے، پاکستان کی قومی اسمبلی کو دینی ہے، یا کسی جرگے کو دینی ہے؟ درخواست دینی کہاں ہے؟ ردوبدل کی اتھارٹی تم بتا دو فہرست میں بنا دیتا ہوں۔
بہرحال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت میں اس فرمائش کا مرحلہ بھی آیا کہ قرآن میں ترمیم کریں لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا یہ میرے اختیار میں ہی نہیں ہے، میں یہ کر ہی نہیں سکتا، اگر کروں گا تو مجھے ”عذاب یوم عظیم” کا خطرہ ہے جبکہ اگلی آیت میں فرمایا ”قل لو شاء اللہ ما تلوتہ علیکم ولا ادراکم بہ” (سورہ یونس) فرما دیں یہ ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ چاہے تو میں تمہیں پڑھ کر نہ سناؤں، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ پڑھ کر اس میں کوئی ترمیم کر دوں۔
میں تیرہ سالہ مکی دور میں دعوت کے مراحل کا خاکہ آپ حضرات کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آخری مرحلہ آیا جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ور آپ کے صحابہ پر مظالم کی انتہا ہو گئی اور تین سال شعب ابی طالب میں محصور رہنا پڑا، حضور نے طائف کا سفر بھی اس غرض سے کیا کہ یہاں کا ماحول سازگار نہیں ہے، شاید طائف والے بات مان لیں لیکن وہاں سے لہولہان واپس آنا پڑا۔ اس کے بعد یہ مرحلہ آیا ”واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک ویمکرون ویمکر اللہ” (سورہ الانفال )
آزمائش کے ان مراحل کے بعد اللہ تعالی نے جب دعوت کا راستہ کھولا تو کیسے کھولا؟ انصار مدینہ کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں ایک صدی تک لڑائی جاری رہی جس میں سینکڑوں لوگ قتل ہوئے۔ لڑائی سے تنگ آ کر چند بوڑھے مل بیٹھے اور کہا کوئی صورت نکالو، کب تک ایک دوسرے کو مارتے مرتے رہو گے؟ لوگوں نے کہا ہم ایک دوسرے پر تو جمع نہیں ہو سکتے، قاتل و مقتول ایک دوسرے پر کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ باہر کا کوئی آدمی مل جائے جو ہماری صلح کرا دے۔ ان کے نمائندے حج کے موسم میں مکہ آئے اور دیکھ رہے ہیں تھے ہمیں ہمارے کام کا کوئی آدمی مل جائے اور ہم اس سے درخواست کریں کہ ہمارے پاس آؤ اور ہماری صلح کرا دو۔
ادھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کفار کے مظالم سے تنگ آ کر حاجیوں کے خیموں میں چکر لگا رہے تھے، دعوت دے رہے تھے اور تلاش کر رہے تھے کہ مجھے کہیں ٹھکانہ مل سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے منٰی میں دونوں کا اکٹھ فرما دیا۔ جہاں بیعت عقبہ اولٰی ہوئی، بارہ آدمیوں نے بیعت کی، اگلے سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی جس میں ستر آدمیوں نے بیعت کی۔ آپس میں خفیہ مذاکرات ہوئے، مدینہ والوں نے عرض کیا کہ حضور! آپ ہمارے ہاں تشریف لے آئیں۔ حضور نے فرمایا، میں بھی جگہ کی تلاش میں ہوں، اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہو گا تو آجاؤں گا۔ حضرت عائشہ اس واقعہ کو تفصیل سے بیان فرماتی ہیں۔ (جاری ہے)