مصنوعی ذہانت، جدید سائنسی مسائل اور ماہرین کی آراء

سائنسی ایجادات و ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا میں جس رفتار سے ترقی ہو رہی ہے اُس سے نت نئے مسائل پیش آ رہے ہیں۔ یہ جدید سائنسی مسائل زندگی کے ہر شعبے یعنی عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات پر محیط ہیں۔ ان مسائل میں دماغی موت، کرپٹو کرنسی، این ایف ٹی، میٹاور س، نیٹ ورک مارکیٹنگ، ڈی این اے اور ثبوتِ نسب، ڈراپ شپنگ، غذائی اشیاء کے حلال و حرام اجزا، لیبارٹری میں تیار کردہ گوشت، مشینی ذبیحہ، میڈیکل انشورنس، ہیومن ملک بینک، کریڈٹ کارڈ، مصنوعی آلہ تنفس، ٹیسٹ ٹیوب اولاد، جدید ذرائع مواصلات سے تجارت، اور اعضاء کی پیوندکاری جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان جدید سائنسی مسائل، بالخصوص معاملات، میڈیکل اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے جڑے مسائل، میں اتنا تنوع و اختصاص درکار ہوتا ہے کہ ماہرینِ فن ہی ان مسائل کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔ ان جدید سائنسی مسائل سے متعلق جب کوئی سوال دارالافتاء سے پوچھا جاتا ہے تو مستند دارالافتاء اور جید مفتیانِ کرام کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ ماہرینِ فن سے رجوع کرتے ہیں۔ جدید سائنسی مسئلہ کی ماہیت و حقیقت ماہرینِ فن سے اچھی طرح سمجھ کر اور مستند و معتبر ماہرین کی آراء کا اعتبار کر کے ان کی آراء کی بنیاد پر بڑی احتیاط کے ساتھ فتویٰ جاری کرتے ہیں۔

راقم کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بعض دارالافتاء میں تخصص کے طلبہ کو جب فتویٰ جاری کرنے کی مشق کرنے کے لیے کوئی جدید سائنسی مسئلہ حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے تو کچھ طلبہ مصنوعی ذہانت مثلاً چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی، ڈیپ سیک و دیگر سافٹ وئیر سے اس جدید سائنسی مسئلہ کی ماہیت و حقیقت اور عالمی سائنسدانوں کی آراء جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کئی نقصانات ہو رہے ہیں۔

اوّل یہ کہ ان تخصص کے طلبہ کو اصل سائنسی مآخذ اور مستند سائنسی ماہرین کی آراء تک رسائی نہیں ہوپاتی اور نتیجتاً وہ کسی جدید سائنسی مسئلہ پر یکطرفہ رائے پر انحصار کررہے ہوتے ہیں۔ دوم یہ کہ تخصص کے طلبہ جدید سائنسی مسائل یعنی شئی کی ماہیت و حقیقت تک رسائی نہیں کرپاتے۔ سوم یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر (یعنی باطل قوتیں) جس جدید سائنسی مسئلہ کے بارے میں جو رائے ان تخصص کے طلبہ کی قائم کروانا چاہتی ہیں ایسا کروانے میں ان کو کافی حد تک کامیابی مل جاتی ہے۔ چہارم یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے اکثر من گھڑت مواد اور معدوم سائنسی حوالہ جات جب دیے جاتے ہیں تو یہ طلبہ اس من گھڑت مواد اور معدوم سائنسی حوالہ جات (ایسے سائنسی مقالے و کتب جو کہ سرے سے موجود ہی نہیں) کو اپنے فتویٰ میں تحریر کرتے ہیں، جس سے ان کے فتویٰ کا معیار اور قابلِ اعتبار ہونے پر سوالیہ نشان پیدا ہوتا ہے۔ نیز بعض مرتبہ حوالہ جات تو درست ہوتے ہیں مگر ان درست حوالہ جات سے متعلق جو بات منسوب کی جاتی ہے وہ ان مقالوں میں نہیں لکھی ہوئی ہوتی۔ پنجم یہ کہ اگر تخصص کے طلبہ کی اس سائنسی تحقیق پر اعتبار کرتے ہوئے دارالافتاء سے فتویٰ جاری ہو جاتا ہے اور اس فتویٰ کی سائنسی بنیاد درست نہیں ہوتی تو سائنسی دنیا میں مفتیانِ کرام کی بدنامی کا سبب بنے گا کہ دارالافتاء کو جدید سائنسی مسائل کی اصل حقیقت کا ادراک ہی نہیں ہے۔

ششم یہ کہ جب جدید سائنسی مسائل میں شئی کی ماہیت و حقیقت تک رسائی نہیں ہوئی اور ان تخصص کے طلبہ کی یکطرفہ رائے قائم ہوگئی اور اس پر فتویٰ بھی جاری ہوگیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس جدید سائنسی مسئلے کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف مزید پروان چڑھتا ہے اور پھر علمائے کرام کے مقالات میں جابجا غیر معیاری سائنسی تحقیق کے حوالے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور حق بات پسِ پشت چلی جاتی ہے اور اس طریقے سے باطل قوتیں اپنے نظریات کی جڑیں مسلمانوں میں گاڑ دیتی ہیں۔ ہفتم یہ کہ ان تخصص کے طلبہ کی علمی و فقہی استعداد نہیں بن پاتی اور پھر آگے چل کر جب وہ اہم عہدوں اور شرعی مناصب پر خدمات انجام دیتے ہیں تو پھر سستی، کاہلی، کام چوری اور حد سے زیادہ اعتماد ان میں آجاتا ہے اور وہ ماہرینِ فن اور مستند سائنسدانوں کی سائنسی تحقیقات کو خاطر میں نہیں لاتے کیونکہ ان کا مرجع تو بس مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر ہوتے ہیں۔ ہشتم یہ کہ یہ تخصص کے طلبہ دیگر دارالافتاؤں اور مدارسِ دینیہ میں تدریس و فتویٰ نویسی کی خدمات سے بھی وابستہ ہوں گے۔ اب چونکہ مصنوعی ذہانت سے ہی طلبہ مستفید ہوئے تھے، ان کا تخصص کا مقالہ و تحقیق مصنوعی ذہانت ہی کے مرہونِ منت تھا تو لامحالہ یہ مصنوعی ذہانت کو ہی اپنی کل کائنات سمجھتے ہیں اور اپنی تدریس اور اپنے زیرِ نگرانی تخصص کے طلبہ کو بھی مصنوعی ذہانت کے فوائد گنواتے نہیں تھکتے۔ الغرض ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس سے خدانخواستہ امتِ مسلمہ میں اخلاقی، فقہی و علمی قحط مزید پروان چڑھے گا۔

نہم یہ کہ جب تخصص کے طلبہ کی سنجیدگی اور علمی رسوخ کا سائنسدانوں کا پتہ چلتا ہے اور باوجود ان سائنسدانوں کے صحیح بات بتانے کے یہ تخصص کے طلبہ صحیح سائنسی تحقیق (یعنی حق بات) کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کے استعمال سے ان کی علمی و فقہی صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہوتا ہے اور وہ حد سے زیادہ مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں سے متاثر ہوتے ہیں تو پھر سائنسدانوں ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں اور اس طرزِ عمل سے اصل نقصان امتِ مسلمہ کا ہی ہوتا ہے۔ دہم یہ کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے تخصص کے طلبہ اپنے طرزِ عمل پر شرمندگی کا اظہار کرکے مصنوعی ذہانت کے فتویٰ نویسی میں استعمال سے مکمل اجتناب کریں مگر اکثر یہ مشاہدہ ہوا کہ وہ تاویل کرنے لگ جاتے ہیں۔ یازدہم یہ کہ یہ تخصص کے طلبہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو ہی فنی ماہر اور سائنسدان گرداننا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ فتویٰ نویسی و شریعہ ایڈوائزی کا کام مکمل طور پر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس پر مکمل بھروسہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے ایسے فتویٰ جاری ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کو کبھی مفتیانِ کرام نے سوچا بھی نہ تھا کہ کوئی فتویٰ میں ان امور کو بھی جائز قرار دے سکتا ہے اور پھر یہ منکرات عوام میں رائج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

اب جبکہ بعض تخصص کے طلبہ اور بعض نوجوان مفتیانِ کرام مصنوعی ذہانت پر اپنی فقہی تحقیق و فتویٰ نویسی کے لیے مکمل انحصار کرنے لگ گئے تو لامحالہ فنی تحقیقات، ماہرین کی آراء اور مستند عالمی سائنسدانوں سے ان کا تعامل نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں کی جانب سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ مفتیانِ کرام کو جدید سائنسی مسائل میں خود ماہر ہونا چاہیے اور ایسے حضرات اپنی اس بات کی پُرزور تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں کہ جدید سائنسی مسائل میں ماہرینِ فن سے رجوع نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سوچ درست نہیں کیونکہ”علمائے کرام اور سائنسدانوں کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں اور اپنے فرائضِ منصبی نبھائیں، یعنی جو ذمہ داریاں حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی ہیں وہ ان پر کاربند رہیں اور جو سائنسدانوں، محققین، پروفیسر اور انجینئر حضرات کی ذمہ داریاں ہیں، وہ ان ذمہ داریوں کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دیں۔ اسی سے معاشرہ اِفراط وتفریط سے بچے گا اور ترقی کرے گا۔ اگر علمائے کرام اور سائنسدان اپنے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں گے تو اسی سے معاشرے میں اَبتری پھیلے گی اور خَلطِ مَبحَث پیدا ہوگا۔

جمہور مفتیانِ کرام کے مطابق جدید سائنسی مسائل میں فنی تحقیقات اور ماہرین کی آراء کا اعتبار کیا جائے گا۔ اس بات کی وضاحت بڑی تفصیل کے ساتھ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی زیرِ نگرانی مکتبہ دارالعلوم کراچی سے حالیہ شائع ہونے والی کتاب ”عِلم فقہ اور سائنس از مولانا فداء اللہ صاحب” میں کی گئی ہے۔ ذیل میں ہم اس کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں: ”معلوم ہوا کہ حکم شرعی کی تعیین میں صورت مسئلہ کی تحقیق کی حد تک ماہرین کی رائے از روئے قرآن کریم معتبر ہے”۔ ”اسی طرح بہت سے حضرات نے صورت مسئلہ کی تحقیق میں ماہرین کی رائے کے اعتبار کے لیے آیت کریمہ (فَاسئَلوا ھلَ الذّکرِ اِن کنتم لَا تَعلَمونَ ۔ النحل) سے بھی استدلال کیا ہے بلکہ بعض حضرات نے یہ تصریح بھی کر دی ہے کہ یہاں ”اھل الذکر” سے مراد اہل علم ہیں، چاہے کسی بھی ملت سے ہوں، یعنی ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔” ”اسی طرح حضرات فقہائے کرام نے متعدد مواقع پر حکم شرعی کی تحقیق میں متعلقہ ماہرین کی رائے کا اعتبار کرتے ہوئے اسی آیت کریمہ سے استدلال فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ”اہل الذکر” سے مراد اہل فن اور ماہرین ہیں۔ حضرات فقہائے کرام نے صورت مسئلہ کی تحقیق میں ماہرین کی رائے کا اعتبار کیا ہے اور شئی کی حقیقت و ماہیت کی تحقیق پر غور کرنے کے بعد حکم لگایا ہے۔ اپنی اس بات کی تائید میں مولانا فداء اللہ صاحب نے اپنی کتاب ”علمِ فقہ اور سائنس” میں کتب فقہ سے پندرہ مثالیں پیش کی ہیں جہاں پر فقہائے کرام نے ماہرین کی رائے کا اعتبار کیا ہے۔ اسی طرح اکابر علمائے دیوبند کے فتاوی میں بھی حکم شرعی کی تعیین میں سائنسی تجربات اور فنی تحقیقات کا اعتبار کیا گیا ہے اور ماہرین فن سے رجوع کیا گیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حضرات فقہائے کرام بہت سے مسائل میں فنی مہارتوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور ان مسائل کے احکام کی بناء ماہرین کی آراء پر رکھتے ہیں۔ البتہ کچھ مستثنیات بھی ہیں جن کا ذکر مذکورہ کتاب میں کردیا گیا ہے۔ لہٰذا جو حضرات جدید سائنسی مسائل میں ماہرینِ فن سے ہٹ کر خود ہی فنون کو سیکھ کر یا پھر مصنوعی ذہانت سے مراجعت کرکے، سطحی معلومات کی بنیاد پر اپنے فتویٰ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، وہ ماہرینِ فن کے متبادل نہیں ہوسکتے اور مفتیانِ کرام کے مطابق ان کے جاری کیے گئے فتاویٰ بھی درست نہیں کیونکہ اکثر صورتوں میں انہوں نے صورتِ مسئلہ میں شئی کی حقیقت و ماہیت کو غلط سمجھا ہوتا ہے۔