سیلاب کے بعد کا سماں ہے

سیلاب کی قیامت خیزی جاری ہے۔ جن علاقوں سے ریلے گزر چکے وہاں سیلاب کے بعد کا سماں ہے اور خدا سیلاب کے بعد کا منظر کسی کو نہ دکھائے۔ اس بار جو مون سون شروع ہوا تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ویسے تو ابھی بھادوں چل رہا ہے لیکن ہر سال برسات اتنی طویل نہیں لگتی تھی جتنی اس بار محسوس ہو رہی ہے۔ ویسے تو پورا ملک بلکہ پورا خطہ ہی شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو دن پہلے جو بارش ہوئی وہ خوفزدہ کر دینے والی تھی۔ اس سے چند دن پہلے کراچی میں جو بارش ہوئی اس نے سارا شہر غرق کرکے رکھ دیا۔ لاہور میں جو جھڑی تین چار دن سے لگی ہوئی ہے اُس نے شہر کو گہرے سرمئی غلاف میں لپیٹ رکھا ہے۔ تیز بارش کم ہے لیکن مسلسل جھما جھم ہے۔ لاہور کی جھما جھم شاید مقدار میں زیادہ نہ ہو لیکن زیر آب آنے والی بستیوں نے لوگوں کو فکر مند کر دیا ہے۔ 1988ء کے بعد ایسے بڑے سیلابی ریلے دریائے بیاس، راوی اور ستلج میں کبھی نہیں دیکھے گئے۔

چنانچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اعلانات اور انتباہات کے باوجود لوگ اس کیلئے تیار نہیں تھے۔ یہی سوچا جا رہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ دریا بھرے ہوئے چلیں گے۔ لیکن وہ بپھر کر اپنے کناروں سے اس طرح باہر نکل آئیں گے اور ان کے معاون ندی نالے بھی ایسے اشتعال میں آئیں گے، یہ تصور میں بھی نہیں تھا۔ اب یہ سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے ہیں وہاں اطراف میں قیامت بپا کیے ہوئے ہیں۔ راوی اور ستلج کے جو ریلے شاہدرہ اور گنڈا سنگھ سے چند دن پہلے گزرے، ساہیوال سے ملتان تک انہوں نے دائیں بائیں بستیوں اور فصلوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ چناب کے سیلابی ریلے ان کے علاوہ ہیں۔ جہلم اور سندھ پر موجود منگلا اور تربیلا ڈیم اپنی پوری گنجائش کے ساتھ بھر چکے ہیں۔ ان ڈیموں نے بہت بڑے سیلاب کو سنبھال لینے کا کام کیا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ جھیلیں نہ ہوتیں تو یہ دریا کیسی قیامت ڈھاتے۔ آبی وسائل کے ماہرین کہتے ہیں کہ پنجاب میں ڈیم بنانے کے مقامات بہت کم ہیں۔ درست، لیکن میدانی علاقوں والے ملک پانی کے ریلے کیسے سنبھالتے ہیں؟ کوئی طریقہ تو نکل آنا چاہیے۔

بھارتی پنجاب میں بھی ستلج، بیاس اور توی نے بہت نقصان کیا ہے۔ بہت سے ڈھور ڈنگر بہہ کر پاکستان میں آ گئے۔ پاکستان میں بھی ایک علاقے کے جانور میلوں دور بہہ نکلے اور اب ان کے اصل مالکان اس ناگہانی کو جھیل رہے ہیں۔ ان خبروں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مسلسل کہی جا رہی ہے کہ یہ بھارتی آبی جارحیت کا ایک نمونہ ہے۔ بھارت نے اپنے علاقوں میں سیلاب کی اطلاعات پاکستان کو ضرور دیں لیکن سندھ طاس معاہدے کے مخصوص چینل کے ذریعے نہیں بلکہ دیگر رابطوں سے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے عزائم یہی ہیں کہ پانی کی کمی کے دنوں میں پاکستان کا پانی روک لیا جائے اور سیلابی دنوں میں ریلے چھوڑ کر پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا جائے۔ اس کی دشمنی اپنی جگہ لیکن دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت کے پاس اتنا پانی روکنے کا بندوبست ہے ہی نہیں تو وہ روکے گا کیسے؟

سچ یہ ہے کہ سیلاب اور طوفانی بارشوں نے دونوں طرف تباہی مچائی ہے۔ ہمالیہ کے بالائی حصوں میں ہونے والی بارشیں، کلاؤڈ برسٹ اور گلیشیر پگھلنے کے مسائل بھی دونوں طرف ہیں۔ بھارت میں ہماچل پردیش اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والی بارشوں سے جانی نقصان بھی بہت ہوا ہے۔ مسلسل اور تیز بارشوں سے دریائے توی میں جو طغیانی آئی۔ اس نے جموں اور اطراف کے علاقوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ توی پر واقع مادھو پور ہیڈ ورکس پر بنی سڑک اچانک دھنس گئی اور راستہ بند ہو گیا۔ مادھو پور بیراج کے گیٹ بھی پانی کے دباؤ سے ٹوٹے ہیں۔ مٹی کے پہاڑوں میں برستی بارش اپنے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کی قیامت بھی لاتی ہے۔ 40کے لگ بھگ لوگ انہی دنوں میں لینڈ سلائڈنگ سے مارے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وشنو دیوی مندر جانے والے زائرین تھے۔ یہ مندر جموں کے قریب پہاڑ کٹرا پر واقع ہے اور بارہ تیرہ کلو میٹر کا پیدل راستہ طے کرکے اس مندر تک پہنچا جاتا ہے۔ پھسلتے پہاڑ نے جب ان زائرین کو اپنی لپیٹ میں لیا تو ان کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔

کشمیر کی وادی میں بھی ان قیامت خیز بارشوں نے بہت تباہی مچائی ہے۔ ڈوڈا ضلع میں بھی اموات ہوئی ہیں۔ اننت ناگ (اسلام آباد) ضلع میں جہلم، وشو، برنگی اور لِڈر دریاؤں کا سنگم ہے۔ ادھر بہت سے گھر وں کو پانی نے اس طرح گھیرا کہ مکینوں کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں میں بھی صورتحال بہت خراب ہے اور بارشیں ابھی تھمی نہیں۔ کشمیریوں کے دلوں میں 11سال پہلے 2014ء کے قیامت خیز سیلاب کی یادیں ہیں اور لوگ فکر مند ہیں کہ ایک بار پھر اسی طرح کی صورتحال سے دوچار نہ ہو جائیں۔ 2019ء سے کشمیر بھارتی حکومت کے لاک ڈاؤن اور پکڑ دھکڑ کی زد میں ہے اور نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں یہ بارشیں عام کشمیری کیلئے حالات مزید مشکل بنا رہی ہیں۔

میں مقبوضہ کشمیر، سرینگر کے موسمیات کے ڈائریکٹر کا بیان پڑھ رہا تھا۔ ان کے مطابق اگست 2023ء سے اگست 2025ء تک کشمیر میں 612ملی میٹر بارشیں ہوئی ہیں جو معمول سے 726فیصد زیادہ ہیں۔ 1950ء کے بعد اس سال سب سے زیادہ بارش ہوئی ہے۔ عمرعبداللہ کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت نے 2014ء کے سیلاب کے بعد کوئی انتظام نہیں کیے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔ آپ ہماچل پردیش اور کشمیر کے لوگوں کی شکایات سنیں اور حکومت کی نااہلی کے واقعات سنیں تو سرحد کے اس طرف بھی ادھر سے گہری مماثلت نظر آئی گی۔ دریاؤں اور نالوں کی گزرگاہوں میں گھر اور ہوٹل تعمیر کرنے کے واقعات، پہاڑوں کے ٹکڑے کاٹ کر اپنی زمینوں کو مزید قیمتی بنانے کی حرص۔ لکڑی کے لالچ میں جنگل اور درخت کاٹ ڈالنے کی روایت جس میں حکومتیں خود بھی شریک ہو جاتی ہیں۔ جموں، سرینگر کو ملانے کیلئے ایک نئی سڑک بنائی جا رہی ہے جس میں کشمیریوں کے مطابق دس لاکھ سے زیادہ درخت کاٹے گئے ہیں۔ مسلسل درخت کاٹنے اور نئے درخت نہ لگانے کا واویلا ادھر بھی ہے۔

سب کچھ وہی ہے جو لکیر کے اِس پار ہماری طرف ہے۔ لوگ احتجاج کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں اور بالآخر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں کہ طاقتور مافیاز اور حکومتوں سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ حکومتوں کو اپنی نااہلی، بد انتظامی اور کرپشن چھپانے کا بھی اچھا جواز مل گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں! جس طرح سرکاری ریکارڈ آگ لگ کر راکھ ہو جائے تو ہر ثبوت مٹ جاتا ہے اس طرح سیلاب بھی بہت سے لوگوں کے جرائم کے نشانات ایک دم مٹا دیتے ہیں۔

سیلاب کے بعد کا سماں؟ الامان! ہتھیاروں، بموں اور میزائلوں سے بپا ہونے والی قیامت کا اگر کہیں موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ سیلاب کی پھیلائی ہوئی تباہی ہے۔ منہدم ہو چکے گھر، بنیادوں میں کھڑا پانی، مٹی اور کیچڑ کو کمروں اور صحنوں سے نکالتے مکین، برباد شدہ قیمتی کاغذات اور اشیاء کو روتے مالکان، اجڑی ہوئی فصلیں، بے آباد زمینیں، منہ کے بل گرے ہوئے درخت، کٹے پھٹے کھیت، ہر فصل کو ناممکن بنادینے والا کھیتوں میں کھڑا پانی، کاشتکاروں کی بربادی، دریا برد کنارے، ہر نشیب میں بنے تالاب اور جوہڑ، ٹھہرے پانی میں حشرات الارض کی نرسریاں، مچھروں کی یلغار، پھیلتی بیماریاں۔ ملیریا، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور موسمی بخار۔ ایک ہی جگہ یہ سب اکٹھے ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں سیلاب آیا تھا۔ سیلاب آیا تو چند دن کیلئے تھا لیکن کتنے لوگوں کو زندگی بھر کے داغ دے گیا۔ کتنوں کی عمر بھر کی کمائی لے گیا۔ چند دن یا چند ہفتوں بعد یہ پانی جا چکا ہوگا۔ لیکن اس تباہی کے آثار دلوں میں اور ذہنوں میں رہ جائیں گے۔ سیلاب کے بعد کا سماں خدا کسی کو نہ دکھائے
دل سے تری یاد اُتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے