تیسری اور آخری قسط:
سوشل میڈیا پر ایک مضمون بعنوان ”مصنوعی ذہانت بطور اسلامک مفتی ” (حوالہ: لنکڈان) موجود ہے جس کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ:”زمانے میں ترقی کی وجہ سے نت نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ان مسائل کا شرعی احکامات کی روشنی میں حکم جاننا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے مسلمان عوام شرعی امور کے ماہر مفتیان کرام سے رجوع کرتی ہے تاکہ ان مسائل کا شرعی حکم جان کر ان پر عمل کرسکے۔چونکہ پیش آئندہ مسائل بہت ہیں لہٰذا سوالات کی اس ڈیمانڈ کی وجہ سے مفتیانِ کرام کے جواب دینے کی صلاحیت میں کمی پیدا کردی ہے۔آسان الفاظ میں معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے مفتیانِ کرام قاصر ہیں، یعنی معاشرے کو مفتیانِ کرام کی ایک معتدبہ تعداد میسر نہیں۔ اس طلب و رسد کے مسئلے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کا فتویٰ نویسی میں استعمال کا دروازہ کھل رہا ہے۔نیز خود ساختہ مفتیانِ کرام کا بھی وجود ہے جو اپنے ناموں کے ساتھ ”مفتی” کا لقب لگاتے ہیں مگر نہ ہی انہوں نے کسی مستند دارالافتاء سے تخصص کیا ہے اور نہ ہی کسی نامور عالم کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا،لہٰذا ایک ایسا مصنوعی ذہانت پر قائم نظام ہونا چاہیے جو اعلیٰ معیار کے فتویٰ جاری کرسکے”۔
”اس مصنوعی ذہانت کے نظام کے کام کرنے کے دو طریقہ کار ہوسکتے ہیں۔ اول یہ کہ یہ تخمینہ (پیشین گوئی) کی بنیاد پر فتویٰ جاری کرے یعنی اس کیلئے پہلے سے جاری کیے گئے تمام فتاویٰ کے پیٹرن اور رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے اْن فتاویٰ کی درجہ بندی کرے اور نتائج اخذ کرے اور ان اخذ کردہ نتائج کی بنیاد پر مصنوعی ذہانت (کمپیوٹر یا مشین) نئے فتاویٰ کی پیشین گوئی کرے۔دوم یہ کہ نئے سرے سے مشین مصنوعی ذہانت کے الگوریتھم کو استعمال کرکے فتویٰ جاری کرنے کا عمل سیکھے یعنی قرآن سے براہ راست استفادہ کرکے فتویٰ جاری کرے”۔
”مصنوعی ذہانت کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ فتویٰ جاری کرنے کا ایک زبردست آلہ بنے اور مذہبی دینی مواد کی تشریح کرے مگر ابھی بہت مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز کی صحیح مواد کی بنا پر تربیت کے حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے”۔
”مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز یعنی کمپیوٹر (مشین) کی پہلے سے مہیا کیے گئے مواد کی بنیاد پر تربیت کی جاتی ہے۔ اب چونکہ انگریزی زبان کے مقابلے میں عربی زبان میں فتاویٰ اور دینی علوم کا اتنا مواد موجود نہیں ، نیز مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز کی چونکہ بہت زیادہ انگریزی زبان میں تربیت ہوئی ہے اور وہ اسی میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں، لہٰذا یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ نیز دوسرا مسئلہ جانبدارانہ رائے کا ہے جو انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ انسان عمومی طور پر دلائل کی بنیاد پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ایک رائے رکھتے ہیں اور جب یہی صلاحیت مصنوعی ذہانت کے ذریعے کمپیوٹر میں منتقل ہوگئی تو لامحالہ مشین(کمپیوٹر) بھی کسی مسئلے کے بارے میں جانبدارنہ رائے رکھ سکتا ہے۔یہ وہ کچھ مسائل ہیں جن کی وجہ سے ایک قابلِ بھروسہ مصنوعی ذہانت والا فتویٰ نویسی کا سسٹم بنانے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں”۔
اسی مضمون یعنی ”مصنوعی ذہانت بطور اسلامک مفتی” میں مفتیانِ کرام پر بھی بے جا تنقید کی گئی ہے۔ (حوالہ: لنکڈان)
”حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے سب سے پہلے مفتی کے فرائض منصبی ادا کیے۔صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے وصال کے بعد یہ ذمہ داری علمائے کرام کی طرف چلی گئی اور انہوں نے ایک پورا شعبہ ”آداب المفتی” قائم فرمایا جس کا مقصد اعلیٰ معیار کے مفتیانِ کرام اور فتاویٰ جاری کرنا تھا، تاہم آجکل یہ سخت قوانین اور ضابطے ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور آجکل کے مفتیانِ کرام بنیادی طور پر اجماع پر انحصار کرتے ہیں جو مفتیانِ کرام کو آزادانہ استدلال کرنے سے محدود کرتا ہے، جس کی وجہ سے صفر ذہانت کے فتاویٰ جاری ہوتے ہیں”۔
برطانوی ہائی کورٹ نے کے سینئر جج نے کہا ہے کہ ایسے وکلا کے خلاف مقدمہ چلایا جاسکتا ہے جنہوں نے مقدمات کی پیروی کے دوران ایسا جھوٹا مواد پیش کیا جسے مصنوعی ذہانت نے سافٹ وئیرز نے گھڑا ہو (حوالہ: نیویارک ٹائمز، آٹھ جون 2025) برطانوی ہائی کورٹ کے جج کو یہ اس وجہ سے کہنا پڑا کیونکہ ایسا کئی دفعہ ہوا کہ وکیلوں کی جانب سے ایسے کئی کیسوں اور فیصلوں کا حوالہ دیا گیا جو کبھی موجود ہی نہیں تھے اور یہ سارا مواد مصنوعی ذہانت نے گھڑا تھا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مصنوعی ذہانت کے ٹولز مثلاً چیٹ جی پی ٹی قابلِ اعتماد قانونی تحقیقی کام کرنے کے قابل نہیں ہیں اور مصنوعی ذہانت کے بظاہر مربوط اور قابلِ فہم جوابات مکمل طور پر غلط ثابت ہوسکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت کے جوابات ایسے پْراعتماد دعوے کرسکتے ہیں جو غلط ہوں اور وہ ایسے حوالہ جات دے سکتے ہیں جو موجود ہی نہ ہوں۔
فرمائیں کہ جب برطانوی ہائی کورٹس میں مقدمات کے اندر مصنوعی ذہانت سے تیار کئے گئے مواد کو قانونی تحقیقی کام میں معاونت کے اندر اگر وکلا استعمال کریں تو سینئر برطانوی ہائی کورٹ جج ان وکلا کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا تو پھر فتویٰ نویسی جیسے اہم موضوع جس پر آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کا دارومدار ہے کے اندر کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مصنوعی ذہانت جدید سائنسی مسائل میں فنی تحقیقات اور ماہرین کی آرا کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ اب مصنوعی ذہانت سرجن، وکیل، پروفیسر، جج، فوجی جنرل یا کسی دوسرے شعبے کو ختم کرکے اس کے متبادل کام کرے گی تو یہ محض خام خیالی ہے اورخود کو دھوکا دینے والی بات ہے۔
مصنوعی ذہانت کو فتویٰ جاری کرنے کے قابل سمجھنا درست نہ ہوگا اور اس کی ایک وجہ مصنوعی ذہانت میں موجود خامیاں ہیں۔ بعض صاحبانِ علم نے مصنوعی ذہانت کے فتویٰ نویسی میں استعمال کے کئی نقصانات گنوائے ہیں (حوالہ: زبیر پٹیل، وائٹ تھریڈ) دیگر محققین یہ بتاتے ہیں کہ خاص طور پر جو لوگ آن لائن فتویٰ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے کئی رکاوٹیں پیش آسکتی ہیں۔ (حوالہ: ڈاکٹر احمد بن عبد العزیز، کردش اسٹڈیز) نیز مصنوعی ذہانت سے جاری کیے گئے فتویٰ کو امتِ مسلمہ کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔کسی بھی معاملے یا شے کی حلت و حرمت کے بارے میں حضرات مفتیانِ کرام احکامِ شریعت کی روشنی میں حکم بتاتے ہیں اور یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے جو ہرگز مصنوعی ذہانت کی ان مشینوں کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔خلاصہ یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر قطعی طور پر بھی مفتیانِ کرام کے متبادل نہیں ہوسکتے۔ فتویٰ جاری کرنا انسانوں کا کام ہے اور یہ کام مشین قطعی طور پر انجام نہیں دے سکتی۔ نیز مصنوعی ذہانت کو بطور معاون فتویٰ نویسی کے ہرگز ہرگز استعمال نہ کیا جائے۔ نیز مصنوعی ذہانت جدید سائنسی مسائل میں فنی تحقیقات اور ماہرین کی آرا کا متبادل نہیں ہوسکتی اور بطور معاون فتویٰ نویسی میں مدد بھی فراہم نہیں کرسکتی، لہٰذا تخصص کے طلباء اور نوجوان مفتیانِ کرام اپنے فتویٰ میں مصنوعی ذہانت سے حاصل کی گئی معلومات پر ہرگز انحصار نہ کرنا چاہیے۔