وفاقی کابینہ نے آٹھ برس بعد بالآخر نئے گیس کنکشنز کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ عوامی توقعات کے عین مطابق بھی ہے۔ طویل انتظار کے بعد یہ سہولت دستیاب ہونا عوام کے لیے یقینا کسی ریلیف سے کم نہیں ہے، جس سے ایک بڑی الجھن دور ہوگئی ہے۔
عوامی سطح پر اس اعلان کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ وہ گھرانے جو برسوں سے گیس کنکشن کے لیے دربدر تھے، اب نئی امید کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سلیب سسٹم نے گیس میٹرز رکھنے والوں کے ہاتھ اس قدر باندھ رکھے ہیں کہ کسی ضرورت مند ہمسائے کو گیس کی سہولت دینا تو درکنار وہ اپنی ضرورت کے لیے گیس کا استعمال بھی بڑی احتیاط کے ساتھ کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورت میں گیس کنکشن نہ رکھنے والے صارفین کی مایوسی بہت بڑھی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے وفاقی کابینہ کی نئے گیس کنکشنز دینے کی منظوری کا یہ فیصلہ خاص طور پر خوشی کا باعث ہے کیونکہ مہنگی ایل پی جی ان کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر رہی تھی۔ اگر اس فیصلے پر عملی طور پر شفاف اور منصفانہ عمل درآمد ہوتا ہے تو عوامی اعتماد حکومت پر مزید بڑھے گا۔
وفاقی حکومت کی طرف سے 2017ء میں نئے گیس کنکشنز لگانے پر پابندی لگائی گئی تھی جس کے باعث عوام لکڑی، کوئلہ اور مہنگی ایل پی جی پر انحصار کر رہے تھے۔ اس پابندی سے نہ صرف معیشت پر بوجھ بڑھا بلکہ لکڑی اور کوئلے کے استعمال کے بڑھنے سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا جس نے ہر سال اکتوبر نومبر میں آنے والی اسموگ میں اپنا خاطر خواہ حصہ ڈالا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نئے کنکشنز کے ساتھ ساتھ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی پر بھی توجہ دے۔ تبھی یہ فیصلہ دور رس اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ جس طرح بجلی بنانے کے لیے شمسی توانائی سے مدد لی جا رہی ہے، اسی طرح ہمارے سائنسدانوں کو شمسی توانائی کو بطور ایندھن استعمال کرنے پر کام کر کے عوام کا بہت بڑا مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں حکومت کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیز کو بھی فنڈز مختص کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ گیس کے موجودہ ذخائر پر انحصار کر کے بیٹھ رہنا مناسب نہیں ہے۔ ان ذخائر کے ختم ہونے سے پہلے گیس کے مزید ذخائر دریافت کرنے پر تیزی سے کام کرنا ہو گا۔ ایندھن کے متبادل اور سستے ذرائع کی تلاش پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ نہ صرف نئے صارفین کے لیے وقتی ریلیف ثابت ہو گا بلکہ پرانے صارفین بھی اس سہولت سے محروم ہو جاسئیں گے۔
اپوزیشن جماعتیں اس طرح کے فیصلوں پر ہمیشہ تنقید کرتی رہی ہیں۔ یہ ہمارے سیاسی نظام کی ستم ظریفی ہے کہ حکومتوں کے عوامی فلاح کے کاموں پر اپوزیشن جماعتیں محض اس وجہ سے تنقید کرتی ہیں کہ حکومت عوام میں مقبول ہو جائے گی اور یہ مقبولیت آئندہ الیکشن میں اسے فائدہ دے گی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند ماہ بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے کو سیاسی شعبدہ بازی یا انتخابی حکمتِ عملی قرار دے سکتی ہیں۔ ان کا یہ موقف ہو سکتا ہے کہ ملک میں تو گیس کے اتنے ذخائر موجود ہی نہیں جو بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کر سکیں۔
ماضی میں بھی بارہا ایسے اعلانات کیے گئے لیکن عملی طور پر عوام کو لوڈشیڈنگ، شارٹ فال اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے اپوزیشن یہ سوال اٹھا سکتی ہے کہ حکومت نے اس بار ایسی کون سی ٹھوس تیاری کی ہے جس کی بنیاد پر یہ بڑا اعلان کیا گیا ہے جبکہ گیس تو صارفین کو پہلے ہی پوری نہیں دی جا رہی۔ اب حکومت کے لیے یہ امتحان ہے کہ وہ کس طرح عملی اقدامات کے ذریعے شکوک و شبہات کو دور کرتی ہے۔
اگر وسائل کی منصفانہ تقسیم، شفافیت اور نئے ذخائر و متبادل ذرائع کی تلاش کو یقینی بنایا گیا تو یہ اقدام محض وقتی ریلیف نہیں بلکہ ایک مستقل عوام دوست پالیسی ثابت ہو گا بصورتِ دیگر یہ بھی سابقہ اعلانات کی طرح سیاسی نعرے سے آگے نہ بڑھ سکے گا۔