رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کے تقاضے

(١) ایمان: رسول اللہ ۖ سے ہمارا پہلا تعلق ایمان کا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو!اللہ ،اُس کے رسول اور اُس کی اُس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول مکرّم پر نازل فرمائی اور اُن سب کتابوں پر بھی جو اس سے پہلے نازل فرمائیں ،ایمان لائو اور جو اللہ ، اُس کے فرشتوں ،اُس کی(نازل کی ہوئی) کتابوں ، اُس کے رسولوں اورقیامت کے دن کا انکار کرے گاتو وہ گمراہی میں بہت دور جاپڑا، (النسآئ:136)”۔ثبوتِ ایمان کے لیے صرف مجرّد دعویٰ ایمان کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے دلیل وثبوت چاہیے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

(١)”بدوئوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ فرمائیے: (درحقیقت) تم ایمان نہیں لائے ، بلکہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کی اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، (ہاں!)اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمالِ(خیر) میں کوئی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے، درحقیقت مومن تووہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر کبھی شک میں مبتلا نہ ہوئے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ، یہی لوگ (دعوائے ایمان میں)سچے ہیں، (الحجرات:14-15)”،(٢)”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ (محض) یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لائے،انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا، (العنکبوت:2)”،(٣)”کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے،حالانکہ ابھی تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ،اُن پرآفتیں اور مصیبتیں ٹوٹ پڑیں اور انھیں اس قدر جھنجھوڑا گیاکہ (اُس وقت کے) رسول اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے:اللہ کی مدد کب آئے گی، سنو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے، (البقرة:214)”۔ یعنی انھوں نے دین پر استقامت کا حق ادا کردیا اور اپنے حصے کی قربانیاں پیش کردیں تو پھر وہ اللہ کی نصرت کے حق دار قرار پائے۔

اسی طرح غزوۂ احزاب کے موقع پرکفر کی تمام طاقتیںیکجا ہوکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں اور یہودِ مدینہ بھی اس سازش میں شریک تھے، مگر مسلمان ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب سے اُن کی مدد فرمائی ،اس کی بابت قرآنِ کریم میں فرمایا: ”اے ایمان والو!تم اپنے اوپر اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفارکے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر تند وتیز ہوائیں اور ایسے لشکربھیجے جو تمہیں دکھائی نہیں دیے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے، (یاد کرو!) جب کفار تم پر (وادی کی) بالائی اور نچلی جانب سے حملہ آور ہوئے اورجب (دشمن کی دہشت سے)تمہاری آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اللہ (کی نصرت کے بارے میں) طرح طرح کے گمان کرنے لگے ،اس موقع پر مومنوں کو آزمایا گیا اور شدت سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیاتھا، (الاحزاب:9-11)”۔ جب حضرت زید بن دثنہ انصاری رضی اللہ عنہ کو کفار قتل کرنے لگے تو ابو سفیان نے ان سے کہا : اے زید ! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اس موقع پر(العیاذ باللہ !) تمہاری جگہ محمد ۖ قتل کیے جاتے اور تم اپنے گھر والوں کے پاس (عافیت کے ساتھ ) ہوتے ؟ ، حضرت زید نے جواب دیتے ہوئے کہا :(حضور کا مقامِ شہادت پانا توبہت بڑی بات ہے ) اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ محمد ۖ اس وقت جس جگہ تشریف فرما ہیں، وہاں ان کو کوئی کانٹا بھی چبھ جائے اور میں اپنے گھر والوں میں (عافیت کے ساتھ ) بیٹھا رہوں ۔ حضرت زید کے اس عاشقانہ جواب کو سن کر ابو سفیان جیسے مخالف کو بھی کہنا پڑ ا اصحابِ محمد ۖ جیسی محبت محمد ۖ کے ساتھ کرتے ہیں اس طرح کی محبت میں نے کسی کو کسی سے کرتے ہوئے نہیں دیکھا ، (تفسیر بغوی ، ج: 1، ص :238)”۔

امام ابن کثیر حافظ ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے :
”حضرت عبداللہ بن حُذافہ کو رومیوں نے قید کرکے اپنے بادشاہ کے دربار میں پیش کیا، بادشاہ نے کہا: تم نصرانی ہوجائو ،میں تم سے اپنی بیٹی کا نکاح کرکے اپنی بادشاہت میں شریک کردوں گا،انھوں نے کہا: اگر آپ اپنی تمام بادشاہت اور عالَمِ عرب کی پوری دولت اس شرط پر مجھے دیدو کہ میں پلک جھپکنے کی مقدار بھی دینِ محمد سے رجوع کرلوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ شاہِ روم نے کہا: پھر میں تمہیں قتل کردوں گا، عبداللہ بن حذافہ نے کہا: آپ کی مرضی، پھر روم کے بادشاہ نے انھیں سولی پر لٹکانے کا حکم دیا اور تیر اندازوں سے کہاکہ اس کے ہاتھوں اور پائوں پر تیر مارو، اس دوران وہ ان پر مسیحیت قبول کرنے کے لیے دبائو ڈالتا رہا ،لیکن عبداللہ بن حذافہ انکار کرتے رہے، پھر شاہِ روم نے کہا: اسے سولی سے اتار دواورایک روایت کے مطابق اس نے کہا: ایک تانبے کی ہنڈیا لائو ،پس اُسے گرم کیا گیا اور مسلمان قیدیوں کو لاکر اس میں ڈالا جانے لگااور وہ اس منظر کو دیکھ رہے تھے کہ قیدیوں کا گوشت جل جاتا اور ہڈیاں رہ جاتیں، بادشاہ نے ایک بار پھر پیشکش کی کہ دینِ مسیحی کو اختیار کرلو،انھوں نے پھر انکار کیا، اس پر بادشاہ نے کہا: اسے گھومتی ہوئی چرخی کے ذریعے کھولتی ہوئی ہنڈیا میں ڈال دو، اس پر عبداللہ بن حذافہ رونے لگے، اُن کے رونے کی کیفیت دیکھ کر بادشاہ کو خیال گزرا کہ شاید ان کی ہمت جواب دے گئی ہے تو اس نے ایک بار پھر انھیں دینِ مسیحیت قبول کرنے کی دعوت دی، حضرت عبداللہ بن حذافہ نے کہا: (شاید تم نے یہ سمجھا کہ موت کوآنکھوں کے سامنے دیکھ کر میری ہمت جواب دے گئی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے) میں تو اس لیے رو رہا ہوں کہ یہ ایک ہی جان ہے ، کاش ! میرے ہر بال کے بدلے میں ایک ایک جان ہوتی اور ایک ایک کر کے اُن سب جانوں کو اللہ کی راہ میں کھولتی ہوئی ہنڈیا میں ڈالاجاتا تو مجھے اچھا لگتا۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ رومی بادشاہ نے کئی دن تک قید میں رکھ کر اُن پرکھانا پینا بند کردیا ،پھر اُن کے پاس شراب اور خنزیر کا گوشت بھیجا ، تو وہ اُس کے قریب نہ گئے ، بادشاہ نے اُن کو بلاکر پوچھا: تم نے خنزیر کا گوشت کیوں نہ کھایا ، انھوں نے فرمایا: اگرچہ اسلام میں حالتِ اضطرار میں بقائے حیات کی خاطر”قُوت لا یموت” کی حد تک میرے لیے اس کا کھانا جائز ہے، لیکن میں اسے کھاکر تمہیں خوش نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس پر بادشاہ نے کہا: میرے سر کو بوسا دو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا، عبداللہ بن حذافہ نے کہا: میں اس شرط پر تمہارے سر کو بوسا دوں گا کہ تم سب مسلمان قیدیوں کو آزاد کردو ،اُس نے کہا: ٹھیک ہے، پھر حضرت عبداللہ نے اس کے سر کو بوسا دیا اور شاہِ روم نے انھیں ساتھی قیدیوں سمیت آزاد کردیا، جب وہ واپس مدینے پہنچے (اور )امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ سارا ماجرا معلوم ہوچکا تھا ،آپ نے فرمایا: ہر مسلمان پر لازم ہے کہ عبداللہ بن حذافہ کے سر کو بوسا دے اور میں اس کی ابتدا کر رہا ہوں، سو وہ کھڑے ہوئے اور اُن کے سر کو بوسا دیا، (تفسیر ابن کثیر، ج:4،ص: 606)”، علامہ اقبال نے سچ کہا ہے
چوں میگوئم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الٰہ را

ترجمہ: ”جب میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو میں کانپ اٹھتا ہوں ،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ لا الٰہ الا اللہ پر ثابت قدم رہنے میں کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں ”۔ زبان سے اللہ کا اقرار کرنا آسان ہے ، لیکن اس کے فرامین کے سامنے نفس کی خواہشات کو قربان کرنا مشکل کام ہے ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنارکھا ہے (کہ معبودِ برحق کے فرامین کے مقابلے میں نفس کی باطل خواہشات کو ترجیح دیتا ہے، تو عملاً اُس نے اپنے نفس ہی کومعبود مانا)، (الجاثیہ:23)”۔ (جاری ہے)