سکھر/نوشہروفیروز/شجاع آباد/پتوکی/لاہور:پنجاب کے تمام دریاؤں کا پانی سندھ میں شامل ہونے کے بعد دریائوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہونے سے گڈو بیراج پر اونچے درجے کا سیلابی ریلا پہنچ گیا۔گڈو بیراج پر پانی کی آمد 6لاکھ 12ہزار269 کیوسک اور اخراج 5لاکھ 82ہزار942 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
نشیبی علاقوں کے لیے وارننگ جاری کر دی گئی جبکہ متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا، عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔پاک بحریہ کی ایمرجنسی ریسپانس ٹیمیں کشمور، گھوٹکی، سکھر اور شکارپور میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
ایمرجنسی ریسپانس ٹیمیں ہوورکرافٹ، ریسیکو بوٹس اور ماہر غوطہ خور ٹیموں سے لیس ہیں۔ادھرنوشہرو فیروز میں بھورٹی کے قریب زمیندارہ بند ٹوٹ گیا۔نوشہرو فیروز کے زمیندارہ بند ٹوٹنے سے پانچ گاؤں پانی کے گھیرے میں آگئے ہیں جس کے بعد متاثرین کی محفوظ مقام پر منتقلی جاری ہے۔
حکام کے مطابق سیلابی پانی سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصل بھی ڈوب گئی ہے جس سے کسانوں کو معاشی نقصان ہوا ہے جبکہ دادو میں سیلاب سے متاثرہ کچے کے گاؤں میں مکان گرنے سے خاتون اور اس کی تین سال کی بیٹی جاں بحق ہوگئی جب کہ لاڑکانہ میں عاقل آگانی اور نصرت بند کے سامنے 20 دیہات زیرِ آب آگئے۔
دوسری جانب سکھر بیراج میں اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہے تاہم کچے کے علاقوں سے لوگ اب تک نقل مکانی کو تیار نہیں جبکہ سیلابی ریلا گھوٹکی کے کچے میں داخل ہوگیا،دریائے سندھ کے کچے کے علاقوں میں مویشی چرانے،نہانے پر 15 روز کیلئے پابندی عائد کردی گئی ہے،ممکنہ سیلابی صورتحال کے پیش نظر دریائے سندھ پر عوامی آمد و رفت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
سکھر بیراج پر پانی کی آمد 4 لاکھ 72 ہزار کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے، سکھر، گھوٹکی، کندھ کوٹ، اوباڑو میں کئی بستیاں زیر آب آچکی ہیں۔ادھر ہیڈ پنجند پر پانی کی سطح گرنے لگی ہے تاہم اب بھی 4 لاکھ 92 ہزار کیوسک کا ریلا موجود ہے۔
دریں اثنائملتان کی تحصیل شجاع آباد میں بند ٹوٹنے سے پیدا ہونے والا شگاف 400 فٹ تک بڑھ گیا۔ شگاف پر نہ ہونے کے باعث مزید کئی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ محکمہ انہار کا کہنا ہے کہ مٹی کی کمی شگاف پر کرنے میں آڑے آرہی ہے جب کہ دو روز گزرنے کے باوجود متاثرین بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ پینے کا صاف پانی میسر ہے نا ہی کھانے کی کوئی چیز دستیاب ہے، جانور بھی مر رہے ہیں، ابھی تک ان تک کوئی امداد نہیں پہنچی۔ متاثرین نے کہا کہ علاقے میں اس سے پہلے کبھی سیلابی پانی نہیں آیا لیکن اس بار جو پانی آیا ہے اس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔
سیلاب سے صورتحال سنگین ہونے کے باعث ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا کے مقام پر موٹروے ایم 5 کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ترجمان ڈی جی پی ڈی ایم کے مطابق سیلابی پانی کے کٹائو کے باعث موٹروے میں بریچنگ کا خدشہ ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب، این ایچ اے اور متعلقہ انتظامیہ موٹروے کے بچائو کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ملتان کو دریائے چناب سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہے،ہیڈ محمد والا اورشیر شاہ کی درجنوں بستیاں ابھی تک گہرے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
ادھر چاچڑاں میں سینکڑوں مکانات دریا برد ہوگئے، ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ اور رابطہ سڑکیں ڈوب گئیں۔دوسری جانب وہاڑی میں بھی 100 سے زائد دیہی علاقے سیلاب میں گھر گئے۔ 76 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر فصلیں زیر آب آگئیں۔
علاوہ ازیں رحیم یار خان میں دریائے سندھ پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ متعدد دیہات اور بستیاں زیر آب آگئیں، لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ۔ ہیڈ بلوکی کے مقام پرپانی کی آمد میں مسلسل کمی ، علاقہ مکین اپنے گھروں، علاقوں کوواپس روانہ ہونا شروع ہوگئے۔
علاقہ مکینوں نے حکومت پنجاب سے ناراضگی کا ظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تک کوئی بھی حکومت کا نمائندنہیں پہنچا ہے۔ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ عثمان طاہر نے بتایا کہ چناب کے سیلاب سے ضلع مظفرگڑھ کے 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے، ضلع کا 2 لاکھ 9 ہزار ایکڑ زرعی رقبہ زیرآب آیا اور فصلیں تباہ ہوئیں۔
تحصیل مظفرگڑھ کے 105،تحصیل علی پور کے 26 اور تحصیل جتوئی کے 16 موضع جات متاثر ہوئے، ضلع بھر میں ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں کے لیے 221 کشتیاں کام کررہی ہیں۔ادھرپنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق راوی،ستلج اورچناب میں سیلابی صورتحال سے 4700 سے زائد موضع جات بر ی طرح متاثر ہوئے،دریائے چناب میں مجموعی طور پر2475 موضع جات متاثر ہیں،ستلج میں سیلاب کے باعث 715 موضع جات متاثر ہوئے جبکہ راوی میں سیلاب سے مجموعی طورپر1458 موضع جات متاثر ہوئے۔
ریلیف کمشنرنبیل جاوید کے مطابق سیلابی صورتحال کے باعث مجموعی طورپر 45 لاکھ 74 ہزارلوگ متاثرہوئے،سیلاب میں پھنسے25 لاکھ 16 ہزار لوگوں کومحفوظ مقامات پرمنتقل کیا گیا۔حالیہ سیلاب سے مختلف حادثات میں 104شہری جاں بحق ہوئے۔
دوسری جانب پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے نے مون سون بارشوں کے گیارویں اسپیل کا الرٹ جاری کر دیا۔پی ڈی ایم اے خبردار کیا ہے کہ 16 سے 19 ستمبر کے دوران دریاؤں کے بالائی علاقوں میں بارشوں کا امکان ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق مون سون بارشوں کے باعث ندی، نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دریاؤں کے اطراف اکٹھے ہونے اور سیر و تفریح سے گریز کریں۔