تیسری اور آخری قسط:
لطف کی بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا حضرت عباس جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، آپ کے ساتھ تھے۔ جب اوس و خزرج کے نمائندوں نے حضور کو یثرب آنے کی دعوت دی اور کہا کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے، آپ کو ٹھکانا مل جائے گا اور ہمیں رہنما مل جائے گا، دونوں کا کام چل جائے گا، تو حضرت عباس کھڑے ہوئے اور کہا بات سنو! یہ ہمارا بھتیجا ہے اور ہم بنو ہاشم اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اگر تم میرے بھتیجے کو لے جانا چاہتے ہو تو لے جاؤ لیکن یاد رکھو میرے بھتیجے کو ساتھ لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں پوری عرب دنیا سے لڑائی مول لینا ہو گی۔ اگر پورے عرب سے لڑائی مول لینے کا حوصلہ ہے تو آپ کو ساتھ لے جاؤ، ورنہ رہنے دو ہم ان کی حفاظت کر لیں گے۔ اس پر ان میں سے کچھ حضرات کھڑے ہوئے اور کہا ہم اپنی جانوں پر کھیل کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حفاظت کریں گے۔
بہرحال یہ معاہدہ ہوا اور اللہ تعالی نے آپ کو دعوت کا نیا میدان دے دیا یعنی مدینہ منورہ، لیکن وہاں جانے کے بعد بھی چھ سال لڑائیوں میں گزرے، قریش نے چھ سال تک پیچھا نہیں چھوڑا۔ بدر، احد، خندق، حدیبیہ کے مراحل پیش آئے اور حدیبیہ تک لڑائیاں چلتی رہیں۔ حدیبیہ کی صلح کے بعد دعوت کا میدان کھلا، اگرچہ حدیبیہ میں معاہدہ بظاہر کمزور شرطوں پر ہوا تھا، بہت سے مسلمانوں کو وہ شرائط ہضم نہیں ہو رہی تھیں مگر صلح حدیبیہ کے بعد آپ کو موقع ملا اور آپ نے ”یا ایھا الناس” کے دائرے میں دعوت شروع کی۔ اس سے پہلے تو مکہ والوں سے ہی الجھاؤ رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رومیوں، ایرانیوں، مصریوں، حبشیوں وغیرہ کو دعوت دی اور یہ دائرہ ایسا پھیلا کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعوت دنیا کی دو بڑی طاقتوں تک اور ان کے زیرِ اثر علاقوں تک پہنچا دی۔ ان میں سے ایک مرحلے کا ذکر کرتا ہوں۔
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ دین کی دعوت، دین کا پیغام، اللہ تعالی کی توحید، قرآن کریم کا تعارف اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت پوری نسل انسانی کا حق ہے، اس لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو جب کھلا ماحول ملا اور حالات سازگار ہوئے تو آپ نے دنیا بھر کو دعوت دی اور دعوت کا میدان ایسا وسیع ہوا کہ روم میں ابوسفیان کی زبانی اسلام کی دعوت پہنچی جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بخاری شریف میں یہ تفصیلی روایت موجود ہے، اس کا کچھ حصہ عرض کرتا ہوں۔
صلح حدیبیہ کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف بادشاہوں کے نام اسلام کی دعوت بھیجی۔ روم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی، روم کے بادشاہ ہرقل قیصر روم کو بھی دعوت بھیجی۔ ہرقل اس وقت شام میں آیا ہوا تھا جو روم کا صوبہ تھا۔ ہرقل بیت المقدس میں موجود تھا جہاں اسے اسلام کی دعوت کا خط موصول ہوا۔ بڑے لوگوں کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ تحقیق کرتے ہیں کہ دعوت دینے والا کون ہے، اس کا تعارف پہلے حاصل کرتے ہیں، پھر اس کی دعوت کو دیکھتے ہیں۔ چنانچہ جب حضورۖ کی طرف سے اس کو اسلام کی دعوت ملی تو اس نے کہا ان صاحب (حضورۖ) کے علاقے سے اگر کچھ لوگ آئے ہوئے ہوں تو مجھ سے ملاؤ تاکہ میں ان کے بارے میں تحقیق کروں کہ وہ کون ہیں اور ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ حضرت ابوسفیان، جو بعد میں اسلام لائے، اس وقت حضورۖ کے حریف تھے اور عرب دنیا میں حضورۖ کے سب سے بڑے مدمقابل آپ ہی تھے۔ ابوسفیان شام میں موجود تھے۔ ابوسفیان خود یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہرقل کے کارندے ہمارے پاس آئے اور پوچھا آپ مکہ سے آئے ہیں؟ ہم نے بتایا، ہاں۔ انہوں نے کہا بادشاہ سلامت آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں ہم ہرقل کے دربار میں گئے۔ ہرقل نے ہم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا مکمل تعارف حاصل کیا کہ یہ کون ہیں؟ ان کا نسب کیسا ہے؟ ان کا کردار کیسا ہے؟ بہت سے سوالات کیے، میں جواب دیتا رہا۔
سارا تعارف کر کے، تسلی کر کے آخر میں ہرقل نے ایک سوال کیا کہ ”ماذا یامرکم؟” وہ تمہیں کیا کہتا ہے؟ اس کی دعوت کیا ہے؟ دنیا کے سب سے بڑے حکمران کے سامنے اس کے دربار میں حضورۖ کا جزیرة العرب کا سب سے بڑا حریف کھڑے ہو کر حضور کی دعوت پہنچاتا ہے اور جواب دیتا ہے ”یامرنا ان نعبد اللہ وحدہ ونترک ما کان یعبد اٰبائنا ویامرنا بالصلٰوة والصدق والصلہ والعفاف” اس کی دعوت یہ ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں، اللہ کے سوا جن کی پوجا ہمارے آباء و اجداد کرتے آرہے ہیں سب کو چھوڑ دیں۔پھر کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ نماز پڑھا کرو، سچ بولا کرو، اللہ کے رستے میں خرچ کیا کرو اور پاکدامن رہو۔ یہ اس کی بنیادی دعوت ہے۔
ابو سفیان واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہرقل نے مجھے میرے ساتھیوں سے آگے بٹھا لیا تھا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا تھا اور ان سے کہہ دیا تھا میں اس سے سوال کروں گا اگر یہ جواب میں گڑبڑ کرے تو مجھے اشارہ کر دینا۔ ابوسفیان کہتے ہیں خدا کی قسم! اس اشارے کے ڈر سے میں ہر بات کا جواب سچ سچ بتاتا رہا، ورنہ بخدا میں کیا کیا جھوٹ بولتا۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ میں قوم کا سردار ہوں اگر جھوٹ بولا تو میرا سارا بھرم تباہ ہو جائے گا۔ اس طرح اللہ تعالٰی نے پہلے ہی بندوبست کروا لیا کہ حضورۖ کی دعوت پہنچے تو صحیح شکل میں پہنچے۔
میں نے یہ عرض کیا ہے کہ دعوت کا نقطہ آغاز ہی نسلِ انسانی ہے۔ ہم سبھی اپنے آپ کو اس دعوت کا وارث سمجھتے ہیں اور نہ سمجھیں تب بھی ہم ہی اس دعوت کے وارث ہیں کیونکہ یہ امت کے ذمے ہے۔ اس وقت نسل انسانی میں سات ارب سے زیادہ انسان ہیں، ان سات ارب انسانوں تک دعوت کی صدا لگانا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہم تو ابھی اپنے بھائیوں کو، جو ڈیڑھ پونے دو ارب ہیں، ان کو بھی کلمہ پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کہ ان کا کلمہ صحیح کرا لیں، نماز صحیح کرا لیں، ان کو قرآن پڑھا لیں تاکہ ہم دوسروں کو کہنے کے قابل ہو جائیں لیکن یہ عبوری مرحلہ ہے، اصل ذمہ داری ہماری یہ ہے کہ ”یا ایھا الناس” سے خطاب کریں اور یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے، ہم نے ہی کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ دعوت و تبلیغ کے عمل کو مزید ترقیات اور وسعتوں سے مالامال فرمائیں۔ دعوت کا یہ عمل اصلاح کا عمل ہے، امت کو دین پر واپس لانے کا عمل ہے، نماز، روزہ، حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی تمیز کی طرف واپس آنے کا عمل ہے اور وہ اسلامی ماحول پیدا کرنے کا عمل ہے جو دنیا میں دین کی دعوت کی بنیاد بن سکے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔