قطر پر حالیہ اسرائیلی حملہ نہایت افسوسناک، شرمناک اور شدید قابل مذمت ہے۔ اس پر قطر یا مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک اپنے ردعمل میں کس حد تک جاتے ہیں، اس پر میرا بحث کا قطعی ارادہ نہیں کہ ہم سب جانتے ہیں کیا ہوگا؟ پاکستان کے حوالے سے البتہ ایک بحث جو کل سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہے، اس پر ضرور بات کرنا چاہوں گا۔ ہمارے بعض دوستوں نے طنز خفی میں اور چند ایک نے کھل کر طنزیہ پوسٹیں لگائیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بھی قطر سے مختلف نہیں اور اگر پاکستان پر ایسا حملہ ہوتا تو ہم بھی جواب دینے کی جرأت نہیں کرتے کیونکہ فلاں فلاں مواقع پر ہم بھی خاموش رہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی سرزمین پر ڈرون اٹیک ہوتے رہے اور پاکستان نے جواب نہیں دیا، مئی 2011میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکیوں نے آپریشن کیا اور پاکستانی تماشا دیکھتے رہے وغیرہ۔
دیکھیں، اصول یہ ہے کہ جو بات جیسی ہو، ویسی کہنی چاہیے۔ کسی کی مخالفت بھی ہمیں سچ اور حق بات کہنے سے نہ روک سکے۔ ممکن ہے ہم میں سے کچھ کو اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہو، سیاست میں غیر سیاسی مداخلت سے یہ ناراض یا برہم ہوں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی فورسز کی صلاحیت اور قوت پر شک کریں۔ طنز کریں، تنقید کریں اور خواہ مخوا کی لعنت ملامت بطور قوم اور بطور ملک اپنے اوپر کریں، اپنے سر میں خاک ڈالیں اور بے وجہ ماتم کریں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا معاملہ ایران جیسا نہیں، پاکستان قطر نہیں اور نہ ہی یہ غزہ یا مصر ہے۔ پاکستان ایک طاقتور ملک ہے، جس کے پاس اپنی ضرورت کے مطابق معقول قسم کی عسکری قوت موجود ہے۔ پاکستان دانستہ اپنے لانگ رینج میزائلز کو لوپروفائل میں رکھتا ہے، ورنہ ہمارے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو اسرائیل تک ہٹ کر سکیں۔ یہ بات اسرائیل سمیت ہر ملک جانتا ہے، اسی لیے وہ پاکستانی نیوکلیئر تنصیبات، ہمارے میزائل سسٹم اور دیگر اہم اثاثہ جات کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہ صرف باتیں نہیں بلکہ پچھلے 30، 35برس اس کے گواہ ہیں۔
ہمارے نیوکلیئر سائنس دان بشمول ڈاکٹر عبدالقدیر خان آخری چند برسوں کے سوا عمر بھر آزاد پھرتے رہے ہیں، تھوڑی بہت سیکورٹی انہیں حاصل تھی، مگر ایسا نہیں کہ ان سے ملنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ہم جیسے صحافی بھی ان سے آسانی سے مل کر انٹرویو وغیرہ کر لیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ ان کی سیکورٹی ایسی فول پروف تھی کہ دنیا کی کوئی بڑی خفیہ ایجنسی انہیں نشانہ ہی نہ بنا پاتی۔ ایسا نہیں تھا۔ صرف ایک بات ہر ایک کو معلوم تھی کہ پاکستانی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا تو پاکستانی خفیہ اداروں میں وہ قوت، اہلیت اور عزم موجود ہے کہ وہ جواب میں انہیں بھی شدید وار کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بات بھارتی خفیہ ایجنسی را جانتی ہے، اسرائیلی موساد کو علم ہے اور روسی کے جے بی اور امریکی سی آئی اے سمیت برطانوی ایم آئی سکس بھی اس سے باخبر ہے۔ جواب دینے کی یہ قوت اور استعداد ہی تحفظ کی اصل کنجی ہے۔
بعض اوقات صورتحال اس قدر پیچیدہ ہوجاتی ہے کہ اس پر یوں آسانی کے ساتھ رائے دینا ممکن نہیں ہوتا، ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہوتی۔ ہر چیز کو اس کے تناظر اور پس منظر ہی میں سمجھنا چاہیے۔ پہلے قبائلی ایجنسیوں (فاٹا) پر امریکی ڈرون حملوں کو لے لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی اور قومی وقار کا مسئلہ بھی۔ زمینی حقائق مگر یہ بھی تھے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحادی تھا، وہ اس وقت ایک بڑی اور گہری ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔ ایک طرف امریکا کو افغانستان میں آپریشن کے لیے لاجسٹک سپورٹ دے رکھی تھی، ایئربیسز دیے تھے جبکہ دوسری طرف افغان طالبان قیادت اور ان کی اصل قوت کو بچانا بھی مقصود تھا۔ تب ہمارے منصوبہ سازوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ افغان طالبان کو بچایا جائے اور القاعدہ جیسی گلوبل ایجنڈا رکھنے والی تنظیم کے خلاف آپریشن کیا جائے، ٹی ٹی پی جو تب القاعدہ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، اس کے خلاف بھی کارروائیاں کی جائیں۔ امریکی مسلسل دباو ڈال رہے تھے کہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ باجوڑ اور دیگر ایجنسیوں میں آپریشن کریں۔ پاکستان اس دبا کو کئی برسوں تک ٹالتا رہا۔ حتی کہ جب ممکن نہ رہا تو پھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کی بجائے جہاں افغان طالبان کو سپورٹ کرنے والے گروپ آباد تھے، پہلے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا، پھر باجوڑ شروع کر دیا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کو مزید سال 2 کے لیے موخر کر دیا۔
اس سب میں مجبورا امریکیوں کو فاٹا میں ڈرون حملوں کی اجازت دینا پڑی یا یوں کہہ لیں کہ ان حملوں کو گوارا کرنا پڑا۔ اس لیے بھی کہ ان میں سے بعض حملے خود پاکستان کے مفاد میں تھے اور ٹی ٹی پی کے کئی ہائی پروفائل کمانڈر جو پاکستان میں خود کش حملوں کے ذمہ دار تھے، انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس لیے ڈرون حملے کسی ملک میں دوسرا ملک کرے تو غلط ہیں، مگر جب ایسی پیچیدہ صورتحال ہو، جہاں بہت کچھ چھپایا جا رہا ہو، ایک سپر پاور کے ساتھ ڈبل گیم چل رہی ہو اور اس میں 8، 10، 12برس گزارے جا چکے ہوں، تب بہت کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے جو عام حالات میں نہیں ہوتا۔
2مئی 2011کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ایک افسوسناک اور سیاہ باب ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ امریکا نے تب ہمارے اداروں کو دھوکا دیا، ایک بڑا سرپرائز دیا اور اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے تمام قوانین کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس پر پاکستان کو شدید ردعمل دینا چاہیے تھا، مگر نہیں دیا گیا۔ اس پر تنقید بھی ہوسکتی ہے اور آپ چاہیں تو ان حالات کو سمجھ کر رعایت بھی دے سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسامہ بن لادن پوری دنیا کو مطلوب تھا۔ پاکستان بھی انہیں دہشت گرد سمجھتا تھا۔ اس لیے جس طریقے سے امریکیوں نے وہ آپریشن کیا، وہ سراسر غلط تھا، ہمارے لیے باعث شرمندگی اور باعث رسوائی بنا، مگر بہرحال جس شخص کے لیے وہ آپریشن کیا گیا، پاکستان آفیشلی اس پر انکار یا گریز نہیں کر سکتا تھا۔
کہنے کو تو قطر کے پاس بھی اربوں ڈالر مالیت کے جدید امریکی اور یورپی ہتھیار موجود ہیں، جدید رافیل طیارے بھی ہیں اور بھی بہت کچھ۔ افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی ہتھیار کبھی چلتا نظر نہیں آیا اور شاید آئے بھی نہیں۔ مڈل ایسٹ کے ان مسلمان ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو ایف 35ففتھ جنریشن اسٹیلتھ طیارہ دے رکھا ہے جسے ریڈار پر دیکھنا ہی بہت مشکل ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ جتنے بھی پیسے خرچ کر لیں امریکا کبھی انہیں اسرائیل سے بہتر ہتھیار نہیں دے گا۔ یوں ان کے ہتھیار ہمیشہ کمتر رہیں گے اور اکثر بیشتر وہ شوپیس ہی ہوں گے۔ اگر وہ عقلمندی کرتے تو چینی ہتھیاروں کی طرف جاتے کہ امریکی ہتھیاروں کا کاونٹر صرف چین ہی کر پائے گا۔ پاکستان نے اس کے برعکس ہمیشہ وہ ہتھیار لیے جنہیں چلایا جا سکے، جن سے وہ اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر سکے۔ پاکستان نے اپنے مخالفوں کی قوت کا بھرپور اندازہ لگایا اور اسی حساب سے اپنے بے حد کم وسائل کے باوجود تیاری کی۔ پاکستان نے چین جیسا قابل اعتماد اتحادی بنایا، عشروں کی محنت سے ساتھ ایسے اسٹریٹجک تعلقات بنائے کہ چین کئی ایسے ہتھیار جو صرف چینی فوج کو دئیے جاتے ہیں، وہ بھی پاکستان کو دے رہا ہے۔ پی ایل 15 میزائل سے لے کر مجوزہ پی ایل سترہ میزائل، جدید اواکس (k500)طیارے، چینی اینٹی میزائل سسٹم (Hq19) اور ففتھ جنریش فائٹر طیارے جے 35اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
پاکستان واحد غیر سپرپاور ملک ہوگا جو بیک وقت 2اقسام کے ففتھ جنریش سٹیلتھ فائٹر طیارے لے رہا ہے، چینی جے 35اور ترکی کا مجوزہ طیارہ کان۔ یہ درست حکمت عملی ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے سائنسدانوں نے غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا اور بہت کم وقت میں ایٹم بم بنا لیا، ایرانی سائنس دان ہم سے 3، 4گنا زیادہ وقت ملنے کے باوجود ناکام رہے۔
پوری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ پاکستان ایران ہے نہ قطر نہ کوئی اور مڈل ایسٹ کا ملک۔ پاکستان کی اپنی قوت، پوٹینشل اور اہمیت ہے۔ بطور پاکستانی ہمیں اس پرخوش ہونا چاہیے۔ یہ انڈیا یا کسی دوسرے ملک کا نہیں، یہ ہمارے ملک کا اعزاز ہے۔ اگر ہماری فوج کوئی معرکہ جیتتی ہے تو یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر بہرحال یہ ہماری فوج ہے، اس کی کامیابیاں ہماری ہیں، اس کی فتوحات ہماری فتوحات ہیں۔ ان پر ناز کرنا چاہیے، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مستقبل میں بھی اللہ کی نصرت کی دعا کرنی چاہیے۔