رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے تعلق کے تقاضے

(حصہ دوم)
(٢) محبت: رسول اللہ ۖ سے محبت ایمان کا لازمی تقاضا ہے، آپ ۖ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والد، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہوجائوں، (بخاری:15)”۔ محبت کی دو قسمیں ہیں: (١) ایک طبعی، جیسے انسان اپنے ماں باپ، اولاد، مال ودولتِ دنیاالغرض درجہ بدرجہ تمام متعلقات سے محبت کرتا ہے، یہ انسان کی فطرت وجبلّت کا تقاضا ہے، یہ محبت غیر اختیاری ہوتی ہے اور اسی لیے انسان اس کا مکلّف نہیں ہے، (٢) محبتِ عقلی، اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے عقلی ترجیحات کی بنیاد پر محبت کرے، انسان اس کا مکلّف ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ۖ سے ایسی ہی محبت مطلوب ہے اور مومن پر واجب ہے۔

قرآنِ کریم نے رسول اللہ ۖ سے محبت کے مثبت اور منفی دونوں معیارات بتادیے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”(اے رسولِ مکرّم!)کہہ دیجیے: اگر تمہارے باپ دادا، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں (یا شوہر)، تمہارے رشتے دار، تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری تجارت جس کے خسارے کا تمہیں خدشہ لاحق رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (ومحلّات، اگر یہ سب چیزیں مل کر بھی) تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اُس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (التوبة: 24)”۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں سے محبت کی مطلقاً نفی نہیں فرمائی، کیونکہ درجہ بدرجہ ان چیزوں کی محبت بھی انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، بلکہ یہ فرمایا کہ تمہارا محبوب کوئی بھی ہوسکتا ہے، لیکن محبوب ترین صرف اللہ تعالیٰ، اس کے رسولِ مکرّم ۖ اور اس کی راہ میں جذبۂ جہاد ہونا چاہیے۔ اس کا امتحان تب ہوتا ہے کہ جب ان تمام چیزوں کی محبت مل کر بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب آجائے تو محبتِ رسول کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم ۖ کی محبت کا تقابلی معیار بھی قرآنِ کریم نے واضح الفاظ میں بتادیا، ارشاد ہوا:
”جو اللہ اور قیامت کے دن پر (پختہ) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے بھی محبت کریں، خواہ وہ اُن کے باپ دادا یا بیٹے یا بھائی یا (قریبی) رشتے دار ہوں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثَبت فرما دیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے اُن کی مدد فرمائی اور وہ انھیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، سنو! اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے، (المجادلة: 22)”۔ یہاں واضح طور پر بتا دیا کہ جس دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے، اُس میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی، کیونکہ یہ دونوں محبتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اَضداد کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا مَدار ومعیار بھی اتباعِ رسول کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:

”(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اگر تم (اپنے دعوے کے مطابق) اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ خود تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے، (آل عمران: 31)”۔

(٣)اطاعت واتباع:رسول اللہ ۖ کی محبت کا ایک لازمی تقاضا اطاعت واتباعِ رسول ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں، پس اگر کسی معاملے میں تمہارا صاحبانِ اقتدار واختیار سے جھگڑا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر (سچا)ایمان رکھتے ہو تو (حتمی فیصلے کے لیے )اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو، یہی (شِعار) تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے، (النسآئ: 59)”۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت غیرمشروط ہے، اگر کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو کسی چون وچِرا اور اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی، بلکہ اسے دل وجان سے تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے، جبکہ حاکمِ وقت کی اطاعت غیرمشروط نہیں ہے، یہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ اگر حاکمِ وقت کا کوئی فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف صادر ہو تو اُسے ردّ کیا جا سکتا ہے، اسی کی بابت حدیثِ پاک میں فرمایا: ”(ایسے امر میں کسی بڑے سے بڑے صاحبِ اقتدار واختیار کی) اطاعت لازم نہیں ہے، جس میں خالق کی نافرمانی لازم آئے، (مصنف ابن ابی شیبہ: 33717)”

قرآنِ کریم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم وملزوم قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”اور جس نے رسول کی اطاعت کی، (درحقیقت) اُس نے اللہ ہی کی اطاعت کی، (النسآئ: 80)”۔ نیز فرمایا: ”اور جو لوگ اللہ اور (اس کے) رسول کی اطاعت کریں گے، (اُن کا انجام) اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے (اور وہ) انبیائ، صدیقین، شہداء اور (عبادِ) صالحین ہیں اور وہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں، (النسآئ: 69)”

حدیث پاک میں ہے: فرشتے نبی ۖ کے پاس حاضر ہوئے، ان میں سے بعض نے کہا: یہ سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا: (ان کی) آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ان کا دل بیدار ہے، آگے چل کر فرشتوں نے کہا: سو جس نے محمد (ۖ) کی اطاعت کی، اُس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے محمد (ۖ) کی نافرمانی کی تو اُس نے درحقیقت اللہ ہی کی نافرمانی کی اور محمد (ۖ) لوگوں کے درمیان (ایمان کی حقیقت جاننے کے لیے) حدِفاصل ہیں، (بخاری: 7281)”۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کے مطابق نبی ۖ نے خود بھی فرمایا: ”میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا، (ابودائود: 202)”۔