کیا مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مفتیانِ کرام کی طرح سوچ سکتے ہیں؟

ایک سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کے ماڈل کی تربیت تخصص (مفتی) کے تین سالہ کورس میں طلباء کو دی گئی تربیت کی طرح کر دی جائے، تو کیا یہ ماڈل مفتیانِ کرام کی طرح سوچ سکتے ہیں اور ان کی طرح تجزیہ کرکے فتویٰ نویسی کا کام کرسکتے ہیں؟ ہم اپنے پہلے لکھے گئے مضامین میں کئی حوالہ جات پیش کرچکے ہیں کہ عالمی سطح پر اس سوال کو حل کرنے کی کئی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ان کوششوں کی تاریخ دہائیوں پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ہم قارئین کے سامنے تین حالیہ تحقیقی مقالے اور اس میں کی گئی سائنسی تحقیق کی کچھ تفصیلات پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کے سامنے کی گئی تحقیق کا معیار اور اس سے حاصل کردہ نتائج کا تجزیہ کرنا آسان ہوجائے۔

پہلا تحقیقی مقالہ: ”کیا مصنوعی ذہانت مفتی کی طرح سوچ سکتی ہے؟”
حماد بن خلیفہ یونیورسٹی، قطر کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں پاکستان سے تعلق رکھے والے ایک طالبِ علم پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور وہ کئی سائنسی تحقیقی مقالہ جات تحریر کرچکے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک سائنسی تحقیقی مقالہ بعنوان ”کیا مصنوعی ذہانت مفتی کی طرح سوچ سکتی ہے؟” کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ ابھی یہ سائنسی مقالہ کسی سائنسی جریدے میں باقاعدہ شائع نہیں ہوا ہے اور بطور پری پرنٹ موجود ہے۔

اس تحقیقی مقالے میں مصنوعی ذہانت کے ماڈل کی کارکردگی کا انسانی مہارت کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے ایک نیا معیار (پیمانہ) متعارف کروایا گیا ہے اور ان ماڈلز کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے ایوفی شریعہ معاییر میں سے شرعی اصطلاحات کی تعریف لی گئی ہے اور پھر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے بھی پوچھا گیا کہ وہ ان شرعی اصطلاحات کی تعریف بیان کرے۔ پھر ان دونوں طرح کی شرعی تعریفوں کا نیچرل لینگویج پروسسینگ کے ذریعے تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان جوابات کی توثیق و تصدیق کے لیے سرٹیفائیڈ شریعہ ایڈوائزر اینڈ آڈیٹر (سی ایس اے اے) کے حامل شریعہ ایڈوائزر سے فوکس گروپ ڈسکشن (تبادلہ خیال) کر کے ان شرعی تعریفوں میں فقہی و قانونی نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے اور آخر میں چار مشہور مصنوعی ذہانت کے ماڈلز چیٹ جی پی ٹی، میٹا اے آئی، گوگل جیمنائی اور کلوڈ اے آئی کا ایوفی شرعی معاییر کے کثیر الانتخابی سوالات کے ذریعے موازنہ کیا گیا ہے۔

ایوفی کے شریعہ معاییر میں سے چھیانوے اصطلاحات کی تعریفوں کو لیا گیا ہے جن میں اجارہ، مرابحہ، مضاربہ، مشارکہ، خیار، عْرف، غرر، سلم، اقالہ وغیرہ شامل ہیں۔ پھر چار مشہور مصنوعی ذہانت کے ماڈلز سے صراحتاً دریافت کیا گیا ہے کہ وہ ان چھیانوے اصطلاحات کی وہی تعریف بیان کرے جو ایوفی شریعہ معاییر میں کی گئی ہے۔ پھر پانچ تخصص فی الفقہ کیے ہوئے مفتیانِ کرام (شریعہ ایڈوائزر) کو منتخب کیا گیا جن کے پاس دس سال سے زیادہ کا اسلامک بینکنگ اور فنائنس کا پروفیشنل تجربہ تھا۔ نیز ان پانچوں شریعہ ایڈوائز ر نے ایوفی، بحرین کی سرٹیفائیڈ شریعہ ایڈوائزر اینڈ آڈیٹر (سی ایس اے اے) کی سرٹیفیکیشن کا امتحان بھی پاس کیا ہوا تھا۔ پھر ان پانچوں شریعہ ایڈوائزر کو ان چھیانوے اصطلاحات کی تعریفوں کے جواب مہیا کیے گئے جو ایوفی معاییر میں لکھے ہیں اور مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر نے دیے تھے۔ پھر فوکس گروپ ڈسکشن (تبادلہ خیال) کے ذریعے تصدیق کی گئی کہ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی بیان کردہ اصطلاحات کی تعریفوں میں کیا کیا نقائص تھے۔ اس تحقیقی مقالہ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی مہارت کو مفتیانِ کرام کی مہارت سے تقابل کیا گیاہے۔ اس کے لیے ایوفی، بحرین کی سرٹیفائیڈ شریعہ ایڈوائزر اینڈ آڈیٹر (سی ایس اے اے) کی سرٹیفیکیشن کے امتحان کے سو کثیر الانتخابی سوالات کے ذریعے امتحان لیا گیا اور ہر ایک مصنوعی ذہانت کے ماڈل سے یہی سو سوالات کیے گئے اور پھر بعینہ ان سو سوالات کو سرسٹھ 67شریعہ پروفیشنلز کو منہاج یونیورسٹی، لاہور پاکستان کے المرکز العالمی للبحوث فی الاقتصاد الاسلامی کے زیرِ اہتمام ایک کورس میں پوچھا گیا۔

نتائج کے مطابق ان سو کثیر الانتخابی سوالات میں مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر چیٹ جی پی ٹی نے چونسٹھ 64، کلاڈ نے انسٹھ 59، میٹا اے آئی نے انسٹھ، اور گوگل جیمنائی نے چھپن 56سوالات کے صحیح جوابات دیے۔ ان نتائج کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا کہ چیٹ جی پی ٹی نے دیگر مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے مقابلے میں اس امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔ جن تمام سرسٹھ 67شریعہ پروفیشنلز نے ان سو سوالات کا جواب دیا، ان کا اوسط جواب پچپن آیا۔ نیز ان سرسٹھ شریعہ پروفیشنلز میں سے پچیس فیصد شریعہ پروفیشنلز (انسانوں) نے چیٹ جی پی ٹی سے زائد نمبر حاصل کیے جبکہ پچھتر فیصد شریعہ پروفیشنلز (انسانوں) نے چیٹ جی پی ٹی سے کم نمبر حاصل کیے۔ نیز یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ کسی شریعہ پروفیشنل نے چیٹ جی پی ٹی کے برابر نمبر حاصل نہیں کیے۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر چیٹ جی پی ٹی نے ایوفی، بحرین کی سرٹیفائیڈ شریعہ ایڈوائزر اینڈ آڈیٹر (سی ایس اے اے) کی سرٹیفیکیشن کے امتحان میں پچھتر فیصد شریعہ پروفیشنلز (انسانوں) سے زائد نمبر حاصل کیے، البتہ پانچ شریعہ ایڈوائزر کے ساتھ فوکس گروپ ڈسکشن (تبادلہ خیال) سے یہ بات واضح ہوئی کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیرز شریعہ ایڈوائزری (فتویٰ نویسی) میں معاونت فراہم کرسکتے ہیں مگر شریعہ ایڈوائزری (شرعی مشاور تی سیاق و سباق) کے لیے غیر زیرِ نگرانی عملی طور پر ناکافی ہیں (یعنی انہیں بغیر شریعہ ایڈوائزر کے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔)

تبصرہ: مصنف کی جانب سے کی گئی تحقیق اور اس سے حاصل کردہ نتائج میں تکنیکی و سائنسی طور پر کئی نقائص پائے جاتے ہیں۔
اول: مصنف کے تحریر کردہ تحقیقی مقالے کے ٹائٹل ”کیا مصنوعی ذہانت مفتی کی طرح سوچ سکتی ہے؟” سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مشین ”سوچ” سکتی ہے جبکہ سائنسدانوں اور مستند عالمی محققین کے مطابق ایسا سمجھا درست نہیں اور وہ تو اسے ”فضول، لغو یا بکواس مشینوں” سے تعبیر کرتے ہیں۔

دوم: یہ سائنسی تحقیقی مقالہ سائنسی تحقیقی اصولوں کے مطابق نہیں ہے اور ایسے مقالے اعلیٰ معیاری سائنسی جرائد میں ہرگز شائع نہیں ہوسکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس تحقیقی مقالے میں ”سائنسی تحقیق” نہیں کی گئی۔ آسان الفاظ میں مصنف نے صرف چند شرعی اصطلاحات کو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے پوچھا ہے اور اس کی بنیاد پر پورا مقالہ تحریر کرڈالا۔ عالمی مستند معیار سائنسی تحقیق کرنے والے مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور سائنسدان اس طرح کے تحقیق کو سرے سے تحقیق ہی تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح تو کوئی طبیعات، کیمیا، فلکیات، حیاتیات، ماحولیات اور ریاضیات کی چند اصطلا حیں لے کر مصنوعی ذہانت سے پوچھے اور پھر تحقیقی مقالے چھاپتا چلا جائے۔ کیا یہی معیاری سائنسی تحقیق ہے؟ کیا ایسی سائنسی تحقیق سے مسلمان ترقی یافتہ اقوامِ عالم کا سائنس و ٹیکنالوجی میں مقابلہ کریں گے؟ کیا یہی وہ ”سائنسی تحقیق” ہے جس کا بعض صاحبانِ علم ”مشرق و مغرب کے علوم کا حسین امتزاج” کے عنوان سے پیش کرتے ہیں؟ سائنسی تحقیق یہ ہے کہ جب کوئی طالبعلم اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے دوران اپنے سائنسی شعبے سے متعلق نئے علم کی تخلیق اور تشریح کرتاہے یا پرانی تھیوری پر نظر ثانی یا اس کی ترقی پر کام کرتا ہے تو یہ ڈگری اس کو دی جاتی ہے۔ (حوالہ: جان ریکر، سائنٹیفک ریسرچ ان انفارمیشن سسٹمز، اسپرنگر) (جاری ہے)