عالمی نظام اور جنگوں کے سلسلے

دنیا اِس وقت تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہے جو گہرے تنازعات کو خطرناک جنگوں کی جانب لے جارہاہے ۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالی جائے تو دکھائی دیتاہے کہ مختلف خطوں میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اورذرا آگے چل کرتجارت اور اقتصاد کا عالمی نظام بکھرتا نظر آ رہا ہے۔ ایک طرف روس اور یوکرین کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے تو دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مرتبہ پھر جنگ کے خطرات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں مشرقِ وسطیٰ غزہ کی جنگ کی وجہ سے دہک رہا ہے۔غزہ تاریخ کے بدترین اور اندوہناک سانحہ کا سامنا کررہاہے جہاں لاکھوں انسان ایک جبری اور ظالمانہ قحط کی وجہ سے دم توڑنے کے نزدیک ہیں، لیکن قریبی مسلم ممالک عالمی نظام کے تابع بن کر کوئی بھی کردار ادا کرنے پرآمادہ دکھائی نہیں دیتے۔وہ عالمی اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں جن کی افادیت اس وقت بے معنی ہوچکی ہے ۔ شام میں بھی اسرائیل کے حملوں کے خطرات منڈلا رہے ہیں اور خانہ جنگی کی ایک کوشش ناکام ہونے کے بعد ترکیہ کھل کر شام کی حمایت میں سامنے آ رہا ہے، جس کی بنا پر ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ تصادم کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان بھی رسہ کشی کا ماحول ہے جبکہ چین کے بالکل پڑوس میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔ یہ تمام حالات بیان کر رہے ہیں کہ دنیا میں رائج الوقت نظام جسے اقوامِ متحدہ کی صورت میں ایک چھتری دی گئی ہے، اب فرسودہ ہو چکا ہے اور یہ نظام انسانوں اور اقوام کے درمیان امن، سلامتی اور کمزوروں کے تحفظ میں نہ صرف یہ کہ بالکل ناکام ہے بلکہ الٹا یہ نظام صرف سفید فام اقوام کے مفادات کا محافظ ثابت ہوا ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں رائج جنگوں کی پشت پر سفید فام اقوام کی بالادستی، نوآبادیاتی نظام، جدید استعمار اور عالمی غلبے کی شدید حرص کارفرما ہے، جس نے اقوام کے درمیان کئی دہائیوں پر مشتمل تنازعات، جنگوں اور انسانوں کے لیے شدید مسائل کو جنم دیا ہے۔ غزہ، کشمیر اور برما اس کی مثالیں ہیں اور تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ کا تعلق بھی نوآبادیات کے ورثے اور جدید استعمار کی کوششوں سے جڑ ا ہوا ہے۔

دراصل آج کی دنیا میں جاری جنگوں اور تنازعات کا تعلق گہرے تاریخی تسلسل سے وابستہ ہے۔ خصوصاً فرانس اور برطانیہ جیسے سابقہ استعماری قوتوں نے اپنے دورِ اقتدار میں جو سرحدیں کھینچیں اور مقامی آبادیوں میں جو تقسیم پیدا کی وہ آج بھی مختلف خطوں میں کشیدگی کا سبب بن رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سائیکس پیکو معاہد ہ ہو جس کے ذریعے برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کرتے ہوئے عرب دنیا میں مصنوعی سرحدی لکیریں کھینچیں جو آج بھی تنازعات کا سبب ہے، پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی سرحدی تقسیم ہو یا جنوب مشرقی ایشیا میں فرانسیسی نوآبادیات کا اثر، ان اقدامات نے ایسے ابہام اور تنازعات کے بیج بوئے جو آج بھی پھل پھول رہے ہیں۔ یہ نوآبادیاتی ورثہ ہی جدید استعمار کی بنیاد بنا جہاں براہ راست فوجی قبضے کی بجائے معاشی، سیاسی اور فوجی امداد کے ذریعے خطے کے ممالک پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جہاں تک تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کا تعلق ہے تو اس کے پیچھے گہرے تاریخی اور نوآبادیاتی عوامل کار فرما ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی تشکیل سنہ 1907ء میں فرانس نے اپنے نوآبادیاتی دور میں کی تھی اور اس دوران جو نقشہ تیار کیا گیا تھا اس میں جغرافیائی حقائق کو مدنظر رکھنے کے بجائے فرانسیسی مفادات کو ترجیح دی گئی تھی۔ اس نقشے میں موجود ابہام اور متضاد تشریحات تنازعات کی جڑ ہیںجیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں کی متازع تقسیم اور مسئلہ کشمیر کی صورت میں جنگوں کی بنیاد رکھی گئی۔تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان خاص طور پر پریہا ویہیار اور تا موان تھوم جیسے مندروں یعنی مذہبی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقامات کے گرد موجود علاقے کشیدگی کی وجہ ہیں، جہاں پیش آنے والی ایک عام سی فوجی جھڑپ کے بعد کمبوڈیا کی جانب سے تھائی لینڈ کے شہری علاقوں پر گولہ باری کی گئی جس کے جواب میں تھائی لینڈ نے ایف سولہ طیاروں کے ذریعے کمبوڈیا کے اندر فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کشیدگی کے پیچھے اراکان آرمی کو فنڈز فراہم کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ تجزیہ کار اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بھارت کی مودی سرکارچاہتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں اسرائیل کی طرح اپنا اثر و رسوخ قائم کرے جہاں وہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے علاقائی تنازعات کو ہوا دے اور پراکسی فورسز کی حمایت کرے۔

بھارت کی پاکستان کے خلاف پراکسی وار جس میں اس وقت شدت دیکھی جارہی ہے، جس میں فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان نے اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان کے محافظ دستے بھی میدان جنگ میں ہیں اور کئی علاقوں میں مسلسل لڑائی جاری ہے جس میں ایک ہفتے کے دوران عام سپاہیوں کے ساتھ تین میجر رینک کے افسران شہید ہوئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ بھارت کے ساتھ تین یا چار جنگوں میں پاک فوج کے اتنے افسران شہید نہیں ہوئے جتنے فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ بھارت کی پراکسی وار کا طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔ تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جاری تصادم کو بھی انہی حالات کے تناظر میں دیکھا جاسکتاہے۔ علاوہ ازیں یہ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے اس کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی جنگوں کا جال پھیلانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ اس منصوبے میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا جیسے ممالک کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ خطے میں تنازعات کو ”جنگِ انتخاب”کا آغاز بنایا جاسکے۔ جنگِ انتخاب سے مراد ایسی جنگ ہے جس کا مقصد خاص طور پر ایسے وسائل، علاقوں یا اسٹریٹجک اہمیت کے حامل مقامات پر کنٹرول حاصل کرنا ہوتا ہے جو کسی ملک یا طاقت کے مفاد میں ہوں۔ایسی جنگوں میں انسانی جانوں کے نقصان یا اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔غزہ پر اسرائیل اور امریکاکی حریصانہ نگاہیں اس کی ایک مثال ہے۔غزہ پر کنٹرول حاصل کرکے اسرائیل ا ور امریکا خطے میں اپنے قدم مزید جما سکتے ہیں۔

موجودہ عالمی صورتحال خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تنازعات، بتارہے ہیں کہ کس طرح طاقتور ممالک اپنے مفادات کے لیے کمزور خطوں کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہے ہیں۔ اس موقع پر مسلم امہ کو یہ سوچنا چاہیے کہ یہ محض جغرافیائی اور سیاسی تنازعات نہیں بلکہ یہ عالمی بالادستی کی جنگ ہے۔ مسلم ممالک کو اس جنگ میں استعمال نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس نظام میں ہماری بے عملی اور خاموشی ہمیں مسلسل کمزور کررہی ہے جبکہ انسانیت کے نام پر چلنے والے ادارے اور ان کے دعوے غزہ، کشمیر اور برما میں جاری مظالم کے سامنے ہوا بن کر اڑ گئے ہیں۔