غزہ میں پیش آنے والے حالات اور درد ناک صورت حال تمام انسانوں کا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے اس خطے کو بھوک، پیاس اور موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ روزانہ سینکڑوں بے گناہ فلسطینی، جن میں معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں، غذائی قلت اور طبی امداد کی عدم دستیابی کے باعث لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے امدادی قافلوں پر حملے اور امدادی مراکز پر فائرنگ ظلم کی انتہا ہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق، اسرائیلی فوج کے ہاتھوں صرف ایک دن میں ایک سو چار فلسطینی شہید ہوئے، جن میں78 وہ لوگ تھے جو بھوک سے بلکتے بچوں کی خاطر امداد کے حصول کے لیے جمع ہوئے تھے۔ عالمی ادارہ خوراک کے امدادی قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی، جو شمالی غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار علاقوں تک خوراک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ اطلاعات انسانیت کے ضمیر پر ایک کاری ضرب ہیں۔ یہ ان اقوام کے لیے ایک چیلنج ہے جوکہ انسانیت کو اپنا مذہب قرار دیتی ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کے مظالم کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ، پابندیوں اور سفارتی کوششوں کو تیز کریں، تاکہ انسانیت کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ دوسری طرف یہ خبریں تمام عالم اسلام کے لیے بھی غور وفکر کا مقام ہے۔ امداد حاصل کرنے والوں پر حملے اور دنیا کی خاموشی یعنی جو صورت حال آج غزہ میں درپیش ہے وہی نوبت کسی بھی اسلامی ملک کو پیش آ سکتی ہے۔ غزہ کے حالات اور عالمی بے حسی ہمیں اس پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی جغرافیائی بنیادوں پر کی گئی شناخت اور تقسیم کا ازسرنو جائزہ لیں اور عالم اسلام کے وسط میں پیش آنے والے ان ہولناک حالات اور عظیم المیے میں اپنے کردار کا تعین کریں۔
یہ المناک صورتحال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ صہیونی دہشت گرد اور ان کے پشت پناہ امریکی و یورپی ریاستیں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے انسانیت کی تمام حدیں پار کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے نزدیک وسائل پر تسلط قائم کرنا ہر اخلاقی قدر سے بالاتر ہے۔ غزہ کا یہ سانحہ دراصل ان مسلم ممالک کے لیے عبرت کا نشان ہونا چاہیے جو اپنی معاشی بقا کے لیے اسرائیل کے سرپرست امریکا اور اس کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں سے امداد اور سودی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ امداد اور قرضے فی الاصل جدید نوآبادیاتی نظام کے وہ حربے ہیں جن کے ذریعے مغربی طاقتیں دنیا کے وسائل پر اپنا تسلط برقرار رکھتی ہیں۔ یہ مالی امداد ایک خوبصورت جال ہے جو بظاہر مدد ہے مگر درحقیقت مسلم ممالک کو اقتصادی اور سیاسی غلامی میں دھکیلنے کا حربہ ہے۔ پاکستان اور ترکیہ جیسے ممالک کو جو اس خطے میں اسرائیل کی کسی بھی سازش کا سامنا کر سکتے ہیں، اس سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح معاشی غلامی خودمختاری کو داؤ پر لگا سکتی ہے۔
دوسری جانب غزہ کی مزاحمت نے ثابت کیا ہے کہ وہ تنہا لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی یہ تیاری دنیا بھر کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کے فوجی ترجمان ابوعبیدہ نے واضح کیا ہے کہ مزاحمت کار اسرائیل کے ساتھ ایک طویل جنگ جاری رکھنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور دشمن کو جانی نقصان پہنچانے، خصوصی آپریشن کرنے اور اس کے فوجیوں کو پکڑنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ ان کا یہ چیلنج اس بات کا غماز ہے کہ اگر مسلم دنیا اپنے مفادات کی خاطر مزاحمت کا ساتھ نہیں دیتی تو مزاحمت تنہا ہی اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے گی۔ اگر یہ جنگ جاری رہی تو اس کے منطقی نتائج میں غزہ کی مزید تباہی، خطے میں عدم استحکام میں اضافہ، عالمی سطح پر انسانی حقوق کی صورتحال پر سوالات، اور مسلم دنیا میں شدید بے چینی جیسے حالات پیدا ہوں گے۔ یہ صورتحال عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک پیچیدہ چیلنج بن جائے گی۔ غزہ میں ہونے والی ہلاکتیں اور تباہی صرف اسرائیلی جارحیت کا نتیجہ نہیں بلکہ مسلم دنیا کی بے حسی اور خودغرضی کا بھی شاخسانہ ہے۔ عرب اور مسلم اقوام کے قائدین پر ان ہزاروں فلسطینیوں کے خون کی ذمہ داری ہے جو ان کی خاموشی اور بے عملی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ ایک عرب عالم کے مطابق غزہ نے ہم پر حسن ظن رکھا، یہ سوچا کہ اس کے پیچھے ایک وطن اور ایک امت ہے، لیکن اسے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ موجودہ حالات میں اہل غزہ کی امداد کے لیے مسلم ممالک کے عوام امدادی فنڈز میں عطیات دے سکتے ہیں، طبی سامان اور خوراک کی ترسیل میں حصہ لے سکتے ہیں، غزہ کی حمایت میں مظاہرے کر سکتے ہیں، اور اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ عملی اقدامات اٹھائیں۔ عرب حکمرانوں کی خاموشی اور بے عملی نے غزہ کے لاکھوں بے گناہ شہداء کے خون کو ان کے ناموں کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ ابوعبیدہ کے الفاظ ”تم اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمارے مخالف ہو” دراصل مسلم حکمرانوں کے ضمیر پر ایک تازیانہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب ممالک نیتن یاہو سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ غزہ میں بھوک سے مرنے والے انسانوں کو غذا فراہم کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے اور اس کا جواب ہمیں اپنے کردار و عمل کے آئینے میں دیکھنا ہوگا۔ پاکستان اور ترکیہ جیسے ممالک جو طاقتور بننے کی جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں بھی اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ صرف فوجی طاقت کافی نہیں، بلکہ علاقائی تعاون اور مغربی طاقتوں پر انحصار ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ اس موقع پر فوری طور پر ایک جامع لائن آف ایکشن مرتب کی جانی چاہیے جس میں مسلم ممالک کا مشترکہ انسانی امدادی کوریڈور قائم کرنا، بین الاقوامی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف مقدمات کی حمایت کرنا، اور مغربی طاقتوں پر معاشی دباؤ ڈالنا شامل ہو سکتا ہے۔ اس عظیم انسانی المیے کا نتیجہ یہ ہے کہ غزہ اس دنیا کی بے حسی اور ریاستی دہشت گردی کی علامت بن چکا ہے۔ بچوں کے قتلِ عام اور منظم نسل کشی اور عالمی سطح پر مکمل خاموشی سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا میں اخلاقی اقدار اور انسانی ہمدردی کا کس حد تک زوال ہو چکا ہے۔ یہ المیہ ہمیں اپنی خود غرضیوں اور معاشی و سیاسی مفادات کی قربانی کا درس دیتا ہے۔
غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز صورتحال کے تناظر میں یہ واضح ہے کہ اس ظلم کو روکنے کے لیے محض مذمتی بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ہمیں جدید نوآبادیاتی ہتھکنڈوں کو سمجھنا ہوگا اور ان کے خلاف یکجا ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ غزہ کی پکار دراصل امت مسلمہ پر چھائی ہوئی بے حسی اور عرب حکمرانوں کی خاموشی پر ضرب لگانے کی ایک کوشش ہے، تاکہ ایک عالمی انتفاضہ برپا ہو اور نسل کشی، بھوک اور محاصرہ ختم ہو سکے۔ یہ وقت ہے کہ مسلم امہ اپنے اندر کے خوف کو ختم کرے اور اس ظلم کے خلاف ڈٹ جائے۔