پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں ۔ نئے مالی سال کے تیسرے ہفتے میں بھی مہنگائی میں اضافہ جاری رہا اور ہفتہ وار بنیاد پر مہنگائی کی شرح 0.38 فیصدبڑھنے کے بعد مجموعی سالانہ شرح منفی 1.61 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں 22 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، 9 اشیاء سستی اور 20 اشیا ء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ حالیہ ہفتے ڈیزل 4.15 اور پیٹرول کی قیمت 2 فیصد بڑھ گئی، ایک ہفتے میں چکن 8.31 اور انڈے5.87 فیصد مہنگے ہوئے۔اسی طرح پیاز 1.76 اور آلو کی قیمت میں 1.46 فیصد کا اضافہ ہوا۔دریں اثناء پاکستان و ناسپتی مینیوفیکچررز ایسوسی ایشن ایف بی آر کے افسران کی گھی ملوں میں تعیناتی کے خلاف ملک بھر کی گھی ملیں غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک میں معاشی ترقی اور اقتصادی استحکام کے دعووں کے علیٰ الرغم مہنگائی میں مسلسل اضافہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے باعث تشویش ہے۔سرکاری اعدادوشمار میں تو اس وقت بھی مہنگائی کو کم سے کم دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ عوام کی کمریں مہنگائی کے بوجھ تلے دوہری ہوچکی ہیں۔ہمارے حکمران اس امر سے بخوابی واقف ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی خود بخود بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ ان اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔اس سلسلے میں قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ ایک عرصے سے جاری ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں معمولی اضافہ ہونے پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکدم بڑھادی جاتی ہیں،ساتھ میں ہر مہینے پٹرولیم لیوی کے نام پر اضافی ”جگاٹیکس ” بھی عوام پر تھوپ دیا جاتا ہے جبکہ اسی بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرتی ہیں اور سب سے نچلی سطح پر بھی آجاتی ہیں تو یہاں مختلف حیلے بہانے بناکر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم نہیں کی جاتیں۔حالیہ عرصے میں کئی بار ایسا ہوا کہ معاشی ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 تا 15روپے کمی کی گنجائش پیدا ہوئی اور اوگرا کی جانب سے کمی کی سفارش بھی کی گئی تاہم حکومت نے عوام کو ریلیف دینا ضروری نہیں سمجھا۔پچھلے دنوں ایران اسرائیل جنگ کے ماحول میں عالمی منڈی میں وقتی طور پر تیل کی قیمتیں بڑھیں تو یہاں بھی فورا ً ہی قیمتیں بڑھادی گئیں۔گزشتہ دوماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں30روپے تک کا اضافہ کیا جاچکا ہے جس کو جواز بناکر ٹرانسپورٹ مافیا نے اشیاء صرف کی نقل و حمل اور پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں میں من مانے اضافے کردیے ہیں جس کا لازمی نتیجہ مہنگائی کی نئی تیز رفتار لہر کی صورت میں سب کے سامنے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ تجربہ کار حکومت کی بڑی ناکامی ہے اور اگر خدانخواستہ ناکامی کا یہ تسلسل جاری رہا تو نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کا مستقبل کیا ہوگا۔
پاکستان کے عوام موجودہ سیاسی بندوبست سے مطمئن نہیں ہیں اوربہت سے قومی حلقوں کو جمہوری اداروں کی کارکردگی اور اجزائے ترکیبی پر شروع دن سے تحفظات ہیں مگر عوام نے اس امید پر اس ہائبرڈ نظام کو گوارا کیا ہوا ہے کہ تجربہ کار سیاست دانوں اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت ملک کو بحرانوں سے نکالنے اور عوام کو مہنگائی کی مصیبت سے نجات دلانے میں دوسروں کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔اس حکومت کو ڈیڑھ برس کا عرصہ ہونے کو ہے،یہ امر بلاشبہہ قابل لحاظ ہے کہ اس عرصے میں ملک میں معاشی افراتفری کی وہ صورت حال نہیں ہے جو آج سے دوسال پہلے سیاسی بحران کے دوران پیدا ہوگئی تھی،معیشت کے بڑے اشاریے یقینا مثبت رخ دکھارہے ہیں اور بالخصوص اسٹاک ایکسچینج میں روز نئے ریکارڈ بن رہے ہیں جس کی اپنی جگہ اہمیت ہے مگر معاشی اشاریوں میں دکھائی جانے والی اس تیزی سے عام آدمی کو تاحال کوئی قابل ذکر ریلیف نہیں ملا ہے۔ملک کے غریب عوام کے لیے سب سے بڑا روگ مہنگائی ہے جس کا گراف نیچے آنے کا نام نہیں لیتا۔گوکہ سرکاری اعداد وشمار میں مہنگائی کی سطح بھی بہت نیچے آچکی ہے مگر عام آدمی کے لیے روٹی کی قیمت تاحال کم نہیں ہوئی، آلو ،پیاز اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،پھل فروٹ خریدنا اب عیاشی کے زمرے میں داخل ہوچکا ہے، ٹرانسپورٹ کرایے بدستور بڑھائے جارہے ہیں اور دواؤں کے نرخ مریضوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ملک کے کروڑوںغریب عوام جائیں تو کہاں جائیں، کدھر جاکر فریاد کریں ،کس سے منصفی چاہیں؟ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کو اپنے اندر کچھ احساس پیدا کرنا چاہیے اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو کچھ ریلیف دینے کی فکر کرنی چاہیے۔
اخباری صنعت کو تباہی سے بچایا جائے
حکومت سندھ نے صوبے میں اخباری صنعت کے فروغ کے لیے جامع اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے صوبائی حکومت نے کراچی میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے وفد سے بات چیت کے دوران بتائی۔ شرجیل میمن نے کہا کہ اخباری صنعت معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتی ہے، حکومت سندھ کی اولین ترجیح ہے کہ صحافیوں کو باعزت روزگار اور تحفظ حاصل ہو۔ ہم صحافیوں کی تنخواہوں، ملازمت کے تحفظ، انشورنس اور پیشہ وارانہ تربیت کے تمام معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے جا رہے ہیں۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ سندھ حکومت اپنے وعدے کے مطابق اخباری صنعت کی بحالی اور صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ اس وقت ملک کی میڈیا انڈسٹری شدید بحران سے دوچار ہے، حکومت کی اشتہارات سے متعلق غیر منصفانہ پالیسی اور بدعنوانی کے باعث میڈیا ہاؤسز مالی دباؤکا شکار ہیں، بہت سے اخبارات اور چینلز بند اور ہزاروں صحافی بے بروزگار ہوچکے ہیں۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں اور ملازمین کو ملازمت سمیت کسی چیز کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے توصحافیوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے لہٰذاحکومت کو اخباری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے بیانات سے بڑھ کر موثر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔