ملک بھر میں شدید مون سون بارشوں اور سیلابی صورتحال نے ایک بار پھرہمیں متنبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے خاص لینا دینا نہیں، مگر پھر بھی ہم ان سے متاثر ہونے والے ممالک میں بہت اوپر ہیں۔ حالیہ بارشوں میں بھی غیر معمولی صورتحال کا سامنا رہا۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران چون افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کئی زخمی ہوئے۔ ستائیس جون سے اب تک ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں کل ایک سو اٹھتر اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں پچاسی بچے بھی شامل ہیں۔ مکانات گرنے، سیلاب اور کرنٹ لگنے سے ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں موسلادھار بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ پنجاب حکومت اور دیگر صوبائی اداروں اور فوج نے مربوط اقدامات کی بدولت نقصانات کو کم رکھنے کی کوشش کی۔ پنجاب میں دفعہ 144 کے تحت ڈیموں، دریاؤں اور عوامی مقامات پر تیراکی اور کشتی رانی پر پابندی لگائی گئی ہے جو تیس اگست تک نافذ العمل رہے گی۔ اس موقع پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو مورد الزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صوت حال محض قدرتی آفت نہیں جو انسانی دسترس سے باہر ہو بلکہ ماہرین کے مطابق اس میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں جن پر قومی سطح پر غور کیاجانا ضروری ہوچکاہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ قدرتی آفات کی شدت میں انسانی غلطیاں جیسے بے ہنگم شہری منصوبہ بندی، جنگلات کا کٹاؤ اور آبی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ عالمی سطح پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے کہ انسانی سرگرمیاں خاص طورپر ترقی کے نام پر جاری پیش رفت موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت میں اضافے کا بنیادی سبب ہے۔ زمین کا ماحول بگڑ رہا ہے اور قدرتی آفات زیادہ تواتر اور شدت سے رونما ہو رہی ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر صنعتی سرگرمیوں میں کوئی بڑا حصہ نہیں رکھتا لیکن یہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والا بڑا ملک بن چکاہے۔ اس پر مستزاد وطنِ عزیز میں اہم ذمہ داریوں پر نااہل افراد کا تقرر، سیاست کے کھلاڑیوں کا مفادات پر مشتمل کھیل اورہرطرف پھیلی کرپشن نے تباہی کے عمل کو مزید تیز کردیاہے۔ سیاسی وابستگی اور بدعنوانی گویا لازم وملزوم ہوگئی ہے اور یہ کمزوری ان ضوابط اور معیارات کو نظر انداز کرنے کا باعث بنتی ہے جو ایک عمدہ نظم حکومت کیلئے ضروری ہیں۔
پاکستان کو پہلے بھی سیلاب کا سامنا رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں مختلف رہائشی منصوبوں کا دریاؤں کی گزرگاہوں اور سیلابی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ مزید مسائل کا سبب بن گیا ہے جو ایک تشویشناک امرہے۔ دریاؤں کی گزرگاہوں اور سیلابی علاقوں پر تعمیرات قدرتی بہاؤ میں رکاوٹ بنتی ہیں، جس کے نتیجے میں پانی آبادی والے علاقوں میں داخل ہو کر بڑے پیمانے پر تباہی مچاتا ہے۔ اس سے املاک، بنیادی ڈھانچے اور انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور یہ طویل مدتی ماحولیاتی مسائل کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ یہ منصوبے جن کی شفافیت مشکوک ہے یا وہ بدعنوانی کے ذریعے بنائے گئے، آج شہروں میں سیلاب کی ایک بڑی وجہ بن رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صرف انتظامی نا اہلی نہیں بلکہ قومی وسائل کی لوٹ مار ہے جو ہمیں سیلاب جیسی آفتوں کے مواقع پر مزید مسائل اور مشکلات میں دھکیل رہی ہے۔ ملک بھر میں کرپشن کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات اس صورتحال کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ صرف ایک ضلع میں اربوں کی رقم، بھاری مقدار میں سونا اور دیگر قیمتی اثاثے بدعنوانی کے ذریعے بٹور لیے گئے۔ جہاں اس قدر بڑے پیمانے پر وسائل کا غلط استعمال ہو رہا ہو، وہاں غریبوں کی بروقت امداد اور ڈوبتے شہریوں کی جانیں بچانا کیسے ممکن ہے؟ خیبر پختونخوا سے ملنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس صوبے کو ایک ”انقلابی ”سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ صوبے سے سامنے آنے والی خبریں قومی وسائل کی ایسی بھیانک لوٹ مار کی عکاسی کرتی ہیں جو کسی بھی ملک کو اندر سے کھوکھلا کرسکتی ہے۔
جب ایک ضلع کا سیاسی نمائندہ یا ٹھیکیدار اربوں روپے کی ہوشربا حرام کی کمائی کرسکتا ہے، تو تصور کیا جاسکتاہے کہ بڑے پیمانے پر یہ لوٹ مار کس حد تک پہنچ چکی ہوگی؟ عالمی اداروں کی جانب سے خیبر پختونخوا میں بدعنوانی پر مبنی کئی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ صوبہ کرپشن کے اثرات سے دوچار ہے، جس کے باعث فلاحی منصوبے التوا کا شکار ہیں اور عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ ان حالات میں حکومت کو فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سیلاب جیسی صورت حال اور اس سے جڑے کرپشن، بدعنوانی اور زمینوں پر قبضے جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے قانونی گرفت کو مضبوط کرنا از حد ضروری ہے۔ سب سے پہلے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کو ہٹایا جائے اور دریاؤں کے قدرتی راستوں کو بحال کیا جائے۔ بدعنوانی کے تمام معاملات کی جامع، بے لاگ اور شفاف تحقیقات کی جائیں اور ملوث افراد کو بلا امتیاز کڑی سزائیں دی جائیں۔ ہمیں بطور قوم یہ سمجھنا ہوگا کہ جب ہم اجتماعی طور پر خود احتسابی سے منہ موڑتے ہیں، تو قدرتی آفات جیسے معاملات کے اثرات مزید تباہ کن ہو جاتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری اجتماعی غفلت، بدعنوانی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا عکس بھی ہے۔ سیاسی جماعتیں ڈیموں کی تعمیر اور آبی وسائل کے انتظام پر محض سیاسی مفادات کیلئے سیاست کرتی ہیں، تو اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ سیاسی کشمکش ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا باعث بنتی ہے، پانی کے ذخائر میں کمی آتی ہے اور سیلاب کی صورت میں پانی کے انتظام کے لیے مناسب انفراسٹرکچر کی کمی شدت اختیار کر جاتی ہے۔ اس طرح سیاسی مفادات ملک کو تباہی کی جانب دھکیل دیتے ہیںجیسا کہ فی الوقت سیلاب اور دیگر آفات سے عوام کو ممکنہ حد تک بچانے کی ملکی صلاحیت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ جب تک ہم زمینوں پر قبضے، مافیاز کی اجارہ داری اور خوفناک کرپشن پر قابو نہیں پاتے، ہم اسی طرح کے حالات اور مسائل سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ یہ وقت ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ایک قوم کی ترقی کا راز صرف بیرونی عوامل میں نہیں بلکہ اس کی داخلی ایمانداری، شفافیت اور جوابدہی کے احساس میں مضمر ہے۔ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا تاکہ ایک مستحکم اور خوشحال پاکستان کی تعمیر ممکن ہوسکے۔