پلاننگ کمیشن کی چشم کشا رپورٹ

پلاننگ کمیشن کی ایک اہم دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو 10 بڑے خطرات کا سامنا ہے، معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا ہوگا۔ توانائی کا شعبہ، غیر معیاری تعلیم و صحت، موسمیاتی تبدیلی ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں، ملکی معیشت کو کم برآمدات، سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے فقدان کا سامنا ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ناساز کاروباری ماحول اور زیادہ آبادی بھی سنگین مسئلہ ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پانی و خوراک کی فراہمی پر اثر پڑ رہا ہے، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے معیشت کو مسائل درپیش ہیں، بڑھتی ہوئی غربت کے باعث بھی ملکی معیشت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

پلاننگ کمیشن کی یہ رپورٹ پوری قوم کیلئے چشم کشا ہے۔ اس رپورٹ میں اگرچہ تمام عوامل کی مکمل نشاندہی نہیں کی گئی، تاہم ملکی معیشت اور سماج کی تباہی و زوال کے جس قدر اسباب پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہے، ان پر ہی غور کرلیا جائے اور ان کے سدباب کی فکر کی جائے تو بھی ہم اپنے حالات میں بہت زیادہ بہتری لاسکتے ہیں۔ پلاننگ کمیشن نے دراصل ایک آئینہ قوم اور ملک کے ارباب بست و کشاد کے سامنے رکھ دیا ہے، اس آئینے میں بڑے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے قومی کردار، رفتار، چال ڈھال، سمت اور عمل میں کہاں کہاں جھول ہیں، کہاں کہاں کمی خامی ہے اور کہاں کہاں مشکلات اور کیا کیا رکاوٹیں ہیں۔ ان کا باریک بینی سے جائزہ لے کر طے کرنا آسان ہے کہ درست راستہ کونسا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ نے بطور خاص ملکی معیشت کے جس دھندلائے چہرے کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے، وہ کسی بھی با شعور ریاست، قیادت یا قوم کیلئے ایک ناقوسِ خطر سے کم نہیں۔ یہ خطرے کا وہ الارم ہے، جو مکمل تباہی سے پہلے بجا دیا گیا ہے، ابھی اس پر کان دھرنے اور سبق سیکھنے کا اچھا خاصا وقت میسر ہے۔ کمیشن کی اس رپورٹ کی روشنی میں ہم بطور قوم، ریاست، ادارہ اور فرد اپنا حال، مستقبل اور سمت صاف دیکھ سکتے ہیں۔ اس آئینے میں جھانکنے اور اس میں نظر آنے والی تلخ اور ناگوار حقیقتوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہی دراصل قومی اصلاح کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ ہم حقائق سے چہرہ پھیر لیتے ہیں یا ان کا سامنا کرکے اپنی سمت درست کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ رپورٹ میں قومی معیشت کو لاحق جن 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ نہ صرف ہماری اقتصادی بدحالی کا باعث ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور سیاسی زوال کی بھی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ ان خطرات میں سرفہرست سیاسی عدم استحکام، توانائی بحران، ناقص تعلیم و صحت، برآمدات کا محدود حجم، کاروباری ماحول کا فقدان، مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، تیزی سے بڑھتی آبادی اور غربت جیسے حقائق ہیں۔ غور کیا جائے تو ان میں سے ہر ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو کسی بھی ترقی پذیر ملک کو قعرِ خسران کے دہانے تک پہنچا سکتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ان سب کا مجموعہ بن چکا ہے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی کا خواب ایسا ہی ہے جیسے بغیر کسی مضبوط بنیاد کے ایک عمارت تعمیر کی جائے۔ پلاننگ کمیشن نے درست نشاندہی کی کہ جب تک پالیسیوں میں تسلسل، پارلیمانی نظم و نسق میں توازن اور فیصلہ سازی میں مستقل مزاجی نہیں ہوگی، ملک میں سرمایہ کاری آئے گی اور نہ ہی مقامی صنعت فروغ پائے گی۔ سیاست میں انتقام، الزام، دشنام، اختلاف کو عداوت و دشمنی کی طرح نبھانے کی انتہائی غیر سنجیدہ روایت، انتشار، فساد، پھر ادارہ جاتی کشمکش اور غیر یقینی فضا ملکی معیشت کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ توانائی کے شعبے میں بدانتظامی، گردشی قرضوں کا بحران اور ناقص پالیسی سازی نے صنعت، زراعت اور عام شہری زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر توبجلی و گیس کی فراہمی مستحکم، سستی اور بلا تعطل نہ ہو تو کوئی بھی پیداواری سرگرمی دیرپا نہیں ہو سکتی، بلکہ نقد آور پیداوار پروان ہی نہیں چڑھ سکتی۔ اسی طرح تعلیم اور صحت کے نظام کو نظر انداز کر کے انسانی وسائل کو ترقی دینا ممکن نہیں۔ پلاننگ کمیشن کی یہ نشاندہی انتہائی اہم ہے کہ انسانی ترقی کے بغیر پائیدار معاشی نمو ایک فریب ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ سیلاب، خشک سالی، پانی کی قلت اور فصلوں کی تباہی جیسے عوامل ہماری معیشت کیلئے مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔ ہم اپنے محدود ترین وسائل کے ساتھ لشٹم پشٹم ترقیاتی منصوبے کر بھی لیتے ہیں تو سال دو سال میں طوفانی بارشیں اور تباہ کن سیلاب آکر ہمیں ایک بار پھر صفر پر لاکھڑا کر دیتے ہیں، چنانچہ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ میں بجا طور پر متنبہ کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے فوری اور سائنسی اقدامات نہ کیے گئے تو پانی و خوراک کی سلامتی داو پر لگ جائے گی، ساتھ ہی شہری ترقی بھی خواب بن جائے گی۔ اس رپورٹ کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اگر موجودہ جی ڈی پی شرح نمو برقرار رہی تو 2047 تک ہم صرف 4.7 فیصد تک پہنچ پائیں گے، جبکہ ماہرین کے مطابق قومی ترقی، روزگار کے مواقع اور غربت میں کمی کیلئے ہمیں کم از کم 9.8 فیصد شرحِ نمو درکار ہے۔ یہ فرق نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف خطرات کی فہرست بنا کر بیٹھ رہیں گے؟ یا ان سے نمٹنے کیلئے قابل عمل، ٹھوس اور مربوط حکمتِ عملی بھی اختیار کریں گے؟ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ میں جہاں خطرات کا نقشہ کھینچا گیا ہے، وہیں حل کی راہیں بھی تجویز کی گئی ہیں اور یہ سب سرکاری ماہرین کی ہی ذہن رسا کا حاصل ہے۔ ان میں سب سے اہم نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا، زراعت اور صنعت کو فعال کرنا، ٹیکنالوجی کے استعمال کو عام بنانا، عوام اور نوجوانوں کو ٹیکنالوجی سے متعلق تمام فنون اور ہنر کی تربیت فراہم کرنا اور مالیاتی نظم میں شفافیت پیدا کرنا ہے۔خاص طور پر انسانی وسائل کا مؤثر استعمال، آبادی میں توازن اور نوجوانوں کو کارآمد ہنر سے لیس کرنا اب مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف انفراسٹرکچر یا قرضوں سے معیشت کو بحال نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ کام قومی رویوں، نظم و نسق، تعلیمی اصلاحات اور سماجی شعور کی مدد سے ہی ممکن ہے۔یہ امر بھی ذہن میں رکھا جائے کہ اگر موجودہ رفتار سے ہم آگے بڑھتے رہے تو نہ صرف 2047 کے اہداف دور کے خواب رہیں گے بلکہ ہم علاقائی ترقی کی دوڑ میں بھی پیچھے رہ جائیں گے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ ایک چشم کشا دستاویز ہے، اگر ہم نے اس سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے سال صرف معاشی زوال ہی نہیں بلکہ ریاستی عدم توازن کے بھی گواہ ہوں گے۔