برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت 28 ممالک نے غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اس مقصد کے لیے سیاسی راستہ ہموار کرنے کی پیش کش کی ہے۔ان ممالک نے ایک مشترکہ بیان میںمیں غزہ کے 21 لاکھ شہریوں کو جنوبی رفح میں قائم ”انسانی شہر” میں منتقل کرنے کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ”جبری نقل مکانی” کے مترادف ہے اور بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مشترکہ بیان میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امداد حاصل کرنے کی کوشش میں 800 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں شہریوں کی مصیبتیں ایک نئی گہرائی تک پہنچ گئی ہیں۔ اسرائیل نے اس مشترکہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت کے برعکس ہے۔ امریکا نے بھی اس بیان کو” قابل نفرت” قرار دیا ہے اور اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابے نے کہا ہے کہ ان ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کی بجائے حماس پر اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔
برطانیہ کی سرکردگی میں یورپی اور دیگر ممالک کی جانب سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ پوری دنیا کے باضمیر اور حقیقت پسند انسانوں کے دلوں کی آواز ہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ غزہ پر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے جبراً مسلط کی جانے والی بھوک نے فلسطینی بچوں کی جانیں لیناتیز کر دی ہیں اور غزہ ایک بڑے انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے،اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں بھوک کی صورتحال ”مایوسی کی نئی سطح” تک پہنچ چکی ہے، رپورٹوں کے مطابق، حالیہ دنوں میں 100 سے زائد افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں،اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ”ہر تین میں سے ایک شخص کئی دنوں تک کھانے سے محروم رہتا ہے” ایسے میںدنیا میں انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام ممالک اور ان کے عوام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور غزہ کو صہیونیت اور امریکیت سے نجات دلاکر انسانیت کو تاریخ کے سامنے شرمسار ہونے سے بچائیں۔ برطانیہ سمیت جن ممالک نے یہ بیان جاری کیا ہے، وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اسرائیل کے باؤلے پن کا اگر فوری علاج نہ کیا گیا تو وہ فلسطین کے تیس لاکھ انسانوں کو بھوکامارنے سے دریغ نہیں کرے گا۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ صہیونی بھیڑیا کس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ انسانیت کا خون پی رہا ہے۔ غزہ کے واحد کیتھولک چرچ کو نشانہ بناکروہ دنیا کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ اسے دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ڈھائی ارب مسیحیوں کے جذبات و احساسات کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے جو دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور جن کا کام صرف مصیبت زدہ انسانوں کی مدد کرنا ہے، اسرائیل ان کو بھی مسلسل اور دیدہ دانستہ نشانہ بناکر گویا پوری عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ مارے جارہا ہے۔ چنانچہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے انکشاف کیا کہ دیر البلح میں اس کے مرکزی دفتر اور ملازمین کی رہائش گاہ پر پیر کو تین مرتبہ حملے کیے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادانوم کے مطابق حملے کے دوران دو ملازمین اور ان کے دو اہل خانہ کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کو بعد میں رہا کر دیا گیا، جبکہ ایک تاحال زیرِ حراست ہے۔ اسرائیل جنیوا کنونشن سمیت تمام بین لاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روند کر غزہ کے تمام ہسپتالوں پر حملے کرچکا ہے اور اس وقت وہاں کوئی بھی ہسپتال مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے اونروا پر درجنوں بار حملے کرچکا ہے اور اس کے بیسیوں اہلکاروں کو بہیمیت کا نشانہ بناچکا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل عالمی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں رپورٹنگ سے نہ صرف روک رہا ہے بلکہ وہ تین سو سے زائد صحافیوں کو نشانہ لے کر قتل کرچکا ہے۔ یہ میڈیا کی آزادی کے بین الاقوامی فلسفے اور مغربی نعرے پر تھوکنے کے متراد ف ہے۔ اسرائیل کی اس کھلی بدمعاشی اور غنڈہ گردی پر مغربی ممالک کا اب تک کا پھسپھسا ردعمل نہایت درجے افسوس ناک بلکہ شرم ناک ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مغربی ممالک بالخصوص یورپی اقوام کم از کم اپنی مسلمہ اقدار کی لاج رکھنے کے لیے میدان عمل میں آئیں اور اسرائیل کو اس کی اوقات تک محدود کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داریاں برطانیہ پر عائد ہوتی ہیں۔ فلسطین کا موجودہ مسئلہ دراصل بر طانیہ ہی کے ماضی کی غلط اور استعماری فیصلوں کا شاخسانہ ہے۔ یہ سلطنت برطانیہ ہی تھی جس نے پوری دنیا میں اپنے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے راندۂ درگاہ پھرنے والے صہیونیوں کو سراسرغیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر فلسطین کی سرزمین پر لاکر فرزندان زمین پر مسلط کردیا اور لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی جدی پشتی زمینوں سے بے دخل کرکے یہودیوں کو ان کی جگہ آباد کرنے کی کوشش کی۔ اس ظالمانہ اور غاصبانہ اقدام کو فلسطینیوں نے مسترد کیا تو ان کو طاقت کے ذریعے دبانے اور ڈرانے کی کوشش کی گئی جو پون صدی کا عرصہ گزرجانے کے بعد آج بھی جاری ہے اور پون صدی پہلے کی طرح آج بھی ناکام ہے۔ اسرائیل اپنی اس ناکامی کا بدلہ فلسطینیوں کی مکمل نسلی تطہیر کی صورت میں لینا چاہتا ہے اور اسے امریکا کے موجودہ بدکردار اور جرائم کے حوالے سے شہرت رکھنے والے صدرڈونلڈ ٹرمپ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ برطانیہ اور یورپی ممالک نے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور انہیں اپنی سرزمین سے جبری بے دخل کرنے کے شیطانی منصوبے کی مخالفت کرکے درست موقف اپنایا ہے اور تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کا اچھا فیصلہ کیا ہے مگر یہ فیصلہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور ان ممالک کو مضبوط اور مستحکم عزم کے ساتھ مذکورہ شیطانی منصوبے کے آگے دیوار بن کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔
برطانیہ کو خاص طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے اور ماضی کے اپنے غلط اور تباہ کن فیصلوں اور اقدامات کے ہولناک نتائج کا درست اندازہ لگاکر ان غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ برطانیہ کی موجودہ حکومت اسی نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی کہ وہ فلسطین کے مسئلے کے پر امن حل کے لیے کام کرے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ برطانیہ کی حکمران پارٹی اپنے منشور اوروعدے کے مطابق فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آزادی اور امن کے ساتھ رہنے کا پیدائشی حق دلوانے کے لیے موثر عملی اقدامات کرے۔ برطانیہ دیگر یورپی ممالک کے ساتھ مل کر اگر اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں پر ہی عمل درآمد کرائے تو یہ بھی ایک بڑا کام ہوگا۔