ترقی اور بے انصافی کا متضاد منظرنامہ

پاکستان میں حالیہ دنوں میں اقتصادی اشاریوں میں بہتری کے دعوے مسلسل منظر عام پر آ رہے ہیں۔ اطلاعا ت کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100انڈیکس نئی تاریخی بلندی کو چھو چکا ہے جوکہ ملک کی سو بڑی کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافے کی نشانی اور خریداروں کے اعتماد میں اضافے کی علامت ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا اعداد وشمار پر مشتمل یہ گراف ملک میں صنعتی ترقی اور روزگار یا برآمدات میں اضافے کی وجہ بھی بن رہا ہے یا نہیں؟ دوسری صورت میں ملک کے عام شہری کو اس گراف سے کوئی دل چسپی نہیں ہو سکتی جس کی کمر بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ نے توڑ کر رکھ دی ہے۔ اعداد و شمار تو یہ خوش خبری بھی سنا رہے ہیں کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے، اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نمائندے نے بھی پاکستان کی معاشی کارکردگی کو ”حوصلہ افزا” قرار دیا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کے معاہدے اور پنجاب میں محدود سطح پر کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے مفت سولر سسٹم کی تنصیب جیسے اقدامات بھی حکومتی کوششوں کا پتہ دیتے ہیں۔ پنجاب پولیس کی بجلی چوری کے خلاف کارروائیاں اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی کوششیں بھی ریاستی اداروں کی فعالیت کی غماز ہیں لیکن حکومت کے درست کاموں کی تائید وتحسین کے باوجودگھوم پھر کر سوال پھر وہی ہے کہ اگر ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں ملک کے عام شہریوں کو جان و مال کا تحفظ اور عدل و انصاف میسر نہیں تو اس نظام سے حقیقی معنوں میں فوائد کون سمیٹ رہا ہے؟

حکومت کی جانب سے بیان کردہ تمام اشاریوں سے بظاہر ایک متحرک اور ترقی کی طرف گامزن ریاست کا تصور ابھرتا ہے۔ تاہم یہ ترقی ایک ایسی تصویر دکھا رہی ہے جس کا دوسرا رخ نہایت متضاد ہے۔ ملک میں غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ، ظالمانہ ٹیکس پالیسیاں، اور بعض طبقات کو دی جانے والی مفت یونٹس کی تقسیم جیسے حقائق عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر رہے ہیں۔ ایک جانب اشرافیہ کو فلیٹ ریٹ اور مفت بجلی کی سہولت دی جا رہی ہے، جبکہ دوسری طرف غریب شہری دو سو یونٹ کے بعد ہر اضافی یونٹ کے لیے ہزاروں روپے جرمانہ بھرنے پر مجبور ہیں۔ یہ مالیاتی تفریق معاشی عدل کے بنیادی اصولوں کے صریح خلاف ہے، اور اس سے عوام کے دلوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ یہ کیسی ترقی ہے جس کا ثمر صرف چند لوگوں تک محدود ہے؟

اس متضاد منظرنامے میں ایک اور سنگین حقیقت پاکستان کے خلاف جاری پراکسی وار ہے، جس کی پشت پناہی بھارت اور افغانستان کے کچھ عناصر کر رہے ہیں۔ سیکورٹی فورسز مسلسل ان تمام دشمنوں سے نبرد آزما ہیں۔ گزشتہ روز ہی لورالائی کے قریب سرہ ڈھاکہ کے پہاڑی علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائی کی جس میں 9 شہریوں کو قتل کرنے والے بی ایل اے گروپ کے دو دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کیا گیا اور سات کو ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں بھی فورسز کے جوان مسلسل مصروفِ کار ہیں اور دہشت گردوں کو قدم جمانے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یہ وہ جنگ ہے جہاں غریب اور متوسط طبقات کے بچے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تاکہ ملک کا دفاع کیا جا سکے، ایسے میں اشرافیہ کا کردار کیا ہے؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک طرف عام آدمی مہنگائی اور ٹیکسوں کے ظالمانہ نفاذ کا سامنا کر رہا ہے، اور دوسری طرف اس کے لخت جگر ملک کی سرحدوں اور اندرونی سلامتی کے لیے قربان ہو رہے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ اشرافیہ اپنے عیش و عشرت میں کوئی کمی لانے پر آمادہ نہیں۔ یہ خیال عام ہوتا جا رہا ہے کہ افواج اور دیگر دفاعی اداروں کے جوان ملک کے معدنی وسائل اور ترقیاتی منصوبوں کو بچانے کے لیے دشمن قوتیںکا سامنا کر رہے ہیں لیکن ملک کی اشرافیہ ان وسائل کو لوٹ کر کھانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس تاثر کی بڑی وجہ کرپشن اور بدعنوانی کے مسلسل الزامات ہیں جو حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ گیلپ کے حالیہ سروے میں خیبرپختونخوا کے عوام نے کھلے الفاظ میں میرٹ کے فقدان اور ترقیاتی فنڈز کے ضیاع کا اظہار کیا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کی تقسیم، عوامی سہولیات کی کمی، اور نوجوانوں کے لیے مواقع کی قلت ریاستی اداروں پر عوام کے کم ہوتے ہوئے اعتماد کی علامت ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ اعلیٰ عہدے محض تعلقات کی بنیاد پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اسلام کے اس اصول سے متصادم ہے جس میں عدل اور استحقاق کی بنیاد پر فیصلوں کو ترجیح دی گئی ہے، اور کسی بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے عدل اور شفافیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

ملکی منظر نامے میں معاشی ترقی اور سماجی عدل کے مابین موجود تضاد ایک دیرپا اور سنجیدہ قومی مسئلہ ہے۔ اگر ایک طرف ملکی معیشت کو دیوالیہ پن سے نکالنے کے اقدامات کیے گئے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ان اقدامات کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔ بجلی کی قیمتوں کا بے رحمانہ نظام، کرپشن کے خلاف غیر متوازن کارروائیاں، اور ایلیٹ کلاس کو حاصل مراعات انصاف کے اس بنیادی تصور کو مجروح کرتی ہیں جو کسی بھی پائیدار ریاستی نظام کی بنیاد ہے۔ موجودہ پالیسیاں اگر نچلے طبقے کی مشکلات کم نہیں کرتیں تو ان پالیسیوں کی افادیت محض اعداد و شمار تک محدود سمجھی جائے گی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں چند لوگ آسمان کو چھو رہے ہوں اور اکثریت زمین بوس ہو رہی ہو، وہاں حقیقی خوشحالی کا تصور محال ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک کامیاب ریاست وہی ہوتی ہے جہاں وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو، ذمہ داریاں شفاف ہوں، اور قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ موجودہ تضاد اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ترقی کے ثمرات عام شہری تک منتقل کرنے کے لیے مزید مربوط، انصاف پر مبنی، اور فطری نظام کی ضرورت ہے۔ اگر ملک میں حقیقی استحکام درکار ہے تو اعداد و شمار سے نہیں عدل، انصاف، میرٹ اور شفافیت سے فلاح عام کے راستے کو ہموار کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، معاشی استحکام کی موجودہ رفتار صرف اشرافیہ کے لیے خوشحالی جبکہ عام شہری کے لیے مزید بے بسی کا سبب بنے گی۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر تو یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم ایک ایسے پاکستان کی طرف گامزن ہیں جہاں بااثر اور دولت مند طبقات کی شان و شوکت اور وسائل پر دسترس میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ متوسط اور غریب لوگ مزید دگرگوں صورت حال سے دوچار ہوتے چلے جائیں گے۔ کیا اربابِ حل و عقد اور بالخصوص وزیر اعظم پاکستان ان نکات پر غور فرمائیں گے؟