پاکستان ایک بار شدید پھر مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ رواں سیزن میں اب تک 233 قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، جن میں مرد، خواتین اور معصوم بچے شامل ہیں، 804 سے زائد مکانات مکمل طور پر منہدم ہو چکے ہیں، متعدد شہر اور دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں، راولپنڈی اور گوجرانوالہ میں اربن فلڈنگ کا الرٹ جاری کیا جا چکا ہے، مری اور جھنڈا گلی جیسے سیاحتی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات پیش آئے ہیں اور درجنوں گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق ان تمام ہولناک واقعات کا مشترکہ محرک موسمیاتی تبدیلی ہے، تاہم یہ بات المیے سے کم نہیں کہ پاکستان عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے کم خارجی اثر و کردار رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔ رپورٹس اور اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اور مہلک اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ دنیا میں موسمیاتی تغیر کی یہ خطرناک لہر غیر فطری اور غیر قدرتی ہے اور اس میں بنیادی کردار کاربن کے اخراج کا ہے اور کاربن کا سب سے زیادہ اخراج صنعتی ممالک کر رہے ہیں۔ صنعتی ترقی یافتہ اقوام کی ان بے مہار صنعتی اور کاربن کے اخراج کی بے لگام سرگرمیوں نے دنیا کو موسمیاتی اتھل پتھل کے جس آتش فشاں پر لا کھڑا کیا ہے، اس کے نتائج اب پوری انسانیت بھگت رہی ہے۔ پاکستان اسی غیر قدرتی موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں غیر متوقع بارشوں، شدید گرمی، خشک سالی اور بدترین سیلابوں کا شکار ہوتا جارہا ہے، جس سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ ہماری کمزور معیشت، زراعت، انفراسٹرکچر اور سماجی نظام بھی تباہ ہو رہا ہے۔اس صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک صرف تباہی کے بعد لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں این ڈی ایم اے کی کارکردگی پوسٹ ڈیزاسٹر اقدامات تک محدود ہے۔ ہمیں اب ایک ایسے ادارے کی بھی ضرورت ہے جو ماحولیاتی تغیرات کا سائنسی، تحقیقی اور عملی سطح پر جائزہ لے، پیشگی وارننگ سسٹم کو مؤثر بنائے اور پری ڈیزاسٹر پلاننگ یعنی آفات سے پہلے کے حفاظتی اقدامات کو قومی سطح پر نافذ کرائے۔ آج دنیا کے وہ ممالک جو ان تبدیلیوں کا اصل سبب ہیں، وہ خود اپنے شہروں کو موسمیاتی تغیر سے بچانے کیلئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نسبتاً محفوظ ہیں، ہمیں بھی سنجیدگی سے اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان میں شہروں میں سیلاب (اربن فلڈنگ) ایک مستقل خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کی سڑکیں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ نکاسی آب کا غیر مؤثر نظام، شہری منصوبہ بندی کے فقدان، تجاوزات اور نالوں پر غیر قانونی تعمیرات نے صورتحال کو خطرناک بنا دیا ہے۔ گزشتہ روز راولپنڈی کی ایک پوش ہاؤسنگ اسکیم میں ایک ریٹائرڈ کرنل اور ان کی بیٹی کے برساتی نالے میں بہہ جانے کا المناک واقعہ اربن فلڈنگ کی سنگینی کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہ ہولناک المیہ اس بات کا مظہر ہے کہ اربن فلڈنگ صرف کچی آبادیوں تک محدود مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ پوش شہری علاقوں کیلئے بھی موت کا پیغام بن چکا ہے۔ موسم گرما میں ملک بھر سے عوام کی بڑی تعداد سیر و تفریح کیلئے پہاڑی علاقوں کا رخ کرتی ہے، تاہم موسمیاتی تغیر کے باعث موسم گرما کے کچھ دنوں کے دوران سیاحت بھی اب غیر متوقع بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ جیسے مظاہر قدرت کے پیش نظر خطرناک بن چکی ہے۔ بابوسر ٹاپ، مری، سوات اور دیگر سیاحتی مقامات پر ہر سال ہزاروں افراد بغیر پیشگی تیاری اور موسمی وارننگ کے روانہ ہوتے ہیں اور پھر اچانک آفات میں گھرجاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے مقامات پر سیاحت کے حوالے سے جامع پالیسی بنائے، جس میں کلائمیٹ الرٹس، مقامی کمیونٹی کی تربیت، ہنگامی اقدامات، اور مناسب انفراسٹرکچر کو لازمی قرار دیا جائے۔
پانی کے ذخائر پر توجہ دینا بھی وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ ڈیموں کی کمی کی وجہ سے نہ صرف پانی ضائع ہو رہا ہے بلکہ اربن فلڈنگ بھی قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ ہمیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنانے ہوں گے۔ ساتھ ہی زمین میں پانی اتارنے والے کنویں اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نظام کو بھی اپنانا ہوگا۔ ان اقدامات سے شہری سیلابوں کو بھی روکا جا سکتا ہے اورزیر زمین پانی کی سطح کو بھی قابو کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی کام عوامی آگہی ہے، بدقسمتی سے آج بھی بیشتر شہری قدرتی آفات، موسمیاتی تغیر، اربن فلڈنگ اور ریسکیو کے حوالے سے لاعلم اور لاپروا ہیں۔ اس سلسلے میں تعلیمی نصاب میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ماحولیاتی تعلیم کو شامل کرنا ضروری ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی بحث و مباحثے سے ہٹ کر قوم کو ماحولیاتی شعور دے، ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہر سال ہم مزید تباہی، مزید اموات اور مزید نقصان کا سامنا کرتے رہیں گے۔
غزہ کو بچانے کیلئے مسلم امہ میں اتحاد ضروری ہے
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطہ کرکے انہیں اپنی رہائش گاہ پر مدعو کر لیا۔ اجلاس میں ایم ایم اے کی فعالیت، غیر فعالیت کے اسباب سمیت دیگر امور زیرِ غور آئیں گے۔ ملاقاتوں میں مجموعی سیاسی صورتحال سمیت غزہ اور خطے کی صورتحال بھی زیرِ غور آئے گی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی مسلم امہ کو اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ بالخصوص غزہ میں حالات جو انتہائی سنگین رخ اختیار کر گئے ہیں اور قابض اسرائیل امریکی آشیرباد سے اہل غزہ کو بھوک اور تباہ کن اسلحے سے مکمل ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور غزہ سے آگے بڑھ کر جب چاہتا ہے دیگر اسلامی ملکوں پر بھی آزادانہ حملے کررہا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم امہ میں ہر سطح پر اتحاد و اتفاق ہو۔ پاکستان عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے، مگر بہت سے عوامل کے باعث غزہ کے معاملے میں وہ خاطر خواہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، ایسے میں یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مشترکہ کوششوں سے وطن عزیز پاکستان کو اہل غزہ کی مدد و نصرت کیلئے فعال کرنے میں کردار ادا کیا جائے۔