جاپان کا ”ڈونلڈ ٹرمپ” کیا قیامت ڈھائے گا؟

جاپان کی سیاست میں پچھلے چند دن کے اندر ایک بڑا اپ سیٹ ہوا ہے۔ ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے جاپان کی روایتی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جاپانی تجزیہ کار اور مغربی سیاسی ماہرین بھی اس ڈویلپمنٹ پر بھونچکا رہ گئے ہیں۔ وہ اندازے لگا رہے ہیں کہ اگلے دو تین برسوں میں نجانے کیا ہونے جا رہا ہے؟دراصل جاپان میں چار دن قبل 20 جولائی کو ایوان بالا یعنی جاپانی سینیٹ کی نصف نشستوں کے انتخابات ہوئے تھے، ان میں حکمران اتحاد (ایل ڈی پی۔ کومیئیتو) کو شکست ہوئی، ان کی نشستیں کم ہوئیں اور وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔ یہ شکست یا اکثریت ختم ہونا بھی خبر ہے مگر اصل خبر ہے کہ وہاں انتہائی دائیں بازو کی ایک ایسی جماعت نے اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے ہیں جو خالصتاً یوٹیوب کی پیداوار ہے، جس کے نظریات میں اچھی خاصی شدت پسندی ہے اور وہ امیگرنٹس وغیرہ کی سخت مخالف ہے، جس کا لیڈر خود کو جاپان کا ڈونلڈٹرمپ کہتا ہے اور اسی انداز کی سیاست اختیار کرکے جاپان میں حکومت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی یہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ”سانسیتو”(Sanseito) ہے۔ یہ جماعت تارکین وطن مخالف اور قوم پرستی پر مبنی ”جاپان فرسٹ” ایجنڈے کے ساتھ ابھری ہے۔ اس جماعت نے سوشل میڈیا خاص طور پر یوٹیوب کے ذریعے نوجوان ووٹروں کو متحرک کیا اور 125نشستوں میں سے چودہ سیٹیں جیت لیں۔ سانسیتو (Sanseit) جسے انگریزی میں ‘ڈو اِٹ یورسیلف پارٹی'(Do it Yourself Party) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جماعت 2020ء میں قائم ہوئی اور 2022ء کے ایوان بالا کے انتخابات میں ایک نشست حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کی گئی۔ یعنی اس کی کل عمر تین سال ہے۔ چار دن پہلے الیکشن میں چودہ سیٹیں جیتنے کے بعد یہ اپر ہاؤس میں چوتھی بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ سانسیتو ایک انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت ہے جو جاپانی روایات، ثقافت اور خودمختاری کو فروغ دیتی ہے۔ اس کے اہم نکات میں شامل ہیں:
٭… ”جاپانی فرسٹ” کا نعرہ جو غیرملکیوں کے اثرات اور مہاجرین کے خلاف موقف اپناتا ہے۔
٭…کووڈ (19) کے حوالے سے سازشی نظریات کی ترویج، بشمول ویکسین کے خلاف موقف۔
٭…غیرملکیوں کی فلاحی امداد میں کمی اور غیرملکیوں کے لیے فلاحی پروگرامز کو محدود کرنا۔
٭… غیرجاپانیوں کی جاپان میں زمین خریداری پر پابندی اور جاپانی معیشت میں خودمختاری کو فروغ دینا۔
٭…ملک کے دفاعی بجٹ میں اضافہ اور امریکی فوجی اڈوں کی مخالفت۔
٭…آئین کی نظرثانی اور جاپانی فوج کی خودمختاری۔
٭…روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے روس کی طرف نرم موقف اور ماسکو کے خلاف سخت موقف کی مخالفت۔

مزے کی بات ہے کہ یہ جماعت صرف سوشل میڈیا خاص طور پر یوٹیوب کے ذریعے نوجوانوں اور سیاسی طور پر غیرمتحرک افراد کو متحرک کرتی ہے۔ یعنی اس کی تمام تر قوت ہی سوشل میڈیا ہے۔ اس کی مقبولیت میں اضافہ جاپان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، کمزور ین کی قدر اور حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر عوامی عدم اطمینان کی وجہ سے ہوا ہے۔ سانسیتو کے بانی اور جنرل سیکریٹری سوہئی کامیہ (Sohei Kamiya) ہیں جو 12اکتوبر 1977ء کو جاپان کے شہر تاکاہاما، فکوئی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کانسائی یونیورسٹی سے ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور بعدازاں جاپان کی گرانڈ سیلف ڈیفنس فورس میں سارجنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے وہ سپرمارکیٹ کے منیجر اور انگریزی کے استاد کے طور پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے 2022ء کے ایوان بالا کے انتخابات میں قومی تناسبی نمائندگی بلاک سے ایک نشست حاصل کی۔ کامیہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ”جارحانہ سیاسی انداز”سے متاثر ہو کر اپنی سیاسی حکمت عملی تشکیل دی۔ انہوں نے جرمنی کی اے ایف ڈی اور برطانیہ کی ریفارم یو کے جیسی جماعتوں سے بھی انسپائریشن لی ہے۔ سوہئی کامیہ کوئی روایتی سیاستدان نہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت میں کام کیا، وہ بنیادی طور پر ایک یوٹیوبر، ولاگر ہی ہیں۔ انہیں کووڈ کے دنوں میں شہرت ملی جب کووڈ ویکسین کے خلاف یوٹیوب پوڈکاسٹ کئے اور کئی اعتراضات کئے۔ ڈاکٹروں نے ان باتوں کو کانسپریسی تھیوریز کہا مگر عام لوگوں میں اسے پزیرائی ملی اور کئی کئی ملین ویوز ملتے رہے۔ پھر کامیہ نے جاپانی عوام کے مسائل کو سمجھتے ہوئے وہی باتیں کہنا شروع کر دیں جسے لوگ پسند کریں۔

جاپان میں خاصے عرصے سے تنخواہوں اور کم از کم اجرت میں اضافہ نہیں ہوا، مہنگائی بڑھ گئی ہے، بہت سے معاشی مسائل کا لوگوں کو سامنا ہے۔ امریکا کی جانب سے ٹیرف لگانے کے اعلان سے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ جاپانی کرنسی ین کی قدر میں کمی نے عام آدمی کی قوت خرید پر اثر ڈالا۔ نئی سیاسی جماعت سانسیتو نے اس کو اپنا سیاسی ایجنڈا بنانے میں استعمال کیا۔ سوہئی کامیہ جیسے پُرجوش جارحانہ لیڈر نے ان تمام نکات کو بھرپور انداز سے موجودہ وزیراعظم، موجودہ حکمران اتحاد اور دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کے خلاف استعمال کیا۔ جاپانی سیاست میں کرپشن کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، یہ سب چیزیں بھی اچھے سے استعمال کی گئیں اور یوں وہ الیکشن میں ٹھیک ٹھاک ووٹ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ جاپان کا ایک بڑا مسئلہ عوام کی بڑھتی ہوئی عمر ہے۔ جاپان میں اوسط عمر طویل ہے اور ملک کی آبادی کا خاصا بڑا حصہ ریٹائرمنٹ والی زندگی گزار رہا ہے، یوں وہاں نوجوان سکلڈ لیبر کی بڑی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے چند برسوں کے دوران ایک ملین کے قریب غیرملکی ملازمت اور کام کاج کے لیے جاپان آئے ہیں۔ اس نئی جماعت نے ان غیرملکیوں کے خلاف بھی بہت سا پروپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ جاپان میں جائیداد اور زمین خرید کر مالک بن جائیں گے، جاپانی اقلیت میں چلے جائیں گے، ہمارا کلچر بدل جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ انھوں نے تارکین وطن اور سیاحوں کو ”خاموش قبضہ” (silent invasion) قرار دیا۔

یہ بالکل وہی نعرے ہیں جو صدر ٹرمپ نے استعمال کئے۔ جاپانی لیڈر سوہئی کامیہ نے ٹرمپ کو کاپی کیا اور وہ اس بات کو چھپاتے بھی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں جاپان کا ٹرمپ ہوں اور امریکا کی طرح جاپان میں بھی ٹرمپ ٹائپ سیاست کامیاب ہوگی۔ اپرہاؤس کے الیکشن نے اس کی ایک جھلک تو دکھلا دی ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو اگلے ایک دو برسوں میں عام انتخابات میں یہ بہت بڑا اپ سیٹ بھی کر سکتی ہے۔ جاپانی وزیراعظم کو اس شکست سے شدید دھچکا لگا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان انتخابات کے ذریعے وزیراعظم کو امید تھی کہ ان کی اکثریت مستحکم ہوجائے گی، الٹا وہ مزید نشستیں کم کرا بیٹھے۔ اب حکومتی اتحاد اکثریت سے محروم ہوچکا ہے جس سے قانون سازی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پارلیمنٹ میں دیگر جماعتوں کی حمایت لینا لازم ہو جائے گا۔

وزیراعظم ایشیبا نے ابھی تو یہ کہا ہے کہ وہ استعفا نہیں دیں گے مگر آگے چل کر اندرونی دباؤ کی وجہ سے وزیراعظم کو اپنا عہدہ چھوڑنے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت میں کسی نئے اتحاد یا نئے وزیراعظم کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ سانسیتو کے پاس ابھی نشستیں کم ہیں مگر مستقبل میں دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے قومی سیاست میں اپنی موجودگی مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ اس پورے معاملے میں سب سے اہم یہ ہے کہ سو فیصد شرح خواندگی رکھنے والے جاپان میں جہاں دنیا کے بہترین پروفیشنلز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ رہتے ہیں، انہوں نے بھی ایک انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند سوچ رکھنے والی جماعت کے جذباتی نعروں میں آ کر اسے ووٹ دیا۔ یوٹیوب اور سوشل میڈیا کا جادو جاپانی سیاست میں سرچڑھ کر بولا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور ٹرمپ سٹائل سیاست نجانے کہاں کہاں کیا کیا کچھ کر دکھائے گی؟