غزہ کے بچے!

کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایک ماں اپنے نوزائیدہ بچے کو محض اس لیے بانہوں میں تڑپتا چھوڑ دے گی کہ اس کے پاس اسے پلانے کے لیے دودھ اور کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ غزہ کی گلیوں اور خیموں میں پچھلے کئی ہفتوں سے یہ قیامت روزانہ ٹوٹ رہی ہے۔ یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں کہ غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور چالیس ہزار بچے بالکل موت کے منہ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بچوں کے جسم، اندر کو دھنسی آنکھیں، کئی دنوں سے بھوکے وجود، بے بس مائیں اور ہر طرف سے مایوسی کے سائے یہ اکیسویں صدی کا کربلا ہے۔ یہ صرف جنگ کا مارا ہوا غزہ نہیں بلکہ آٹھ ارب انسانوں کی اجتماعی بے حسی کا قبرستان بھی ہے۔ دنیا کے مختلف اخبارات، نیوز ایجنسیاں اور ابلاغی ادارے غزہ میں جاری قحط پر جو رپورٹنگ کررہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب تک غزہ میں غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں چالیس ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی جانیں فوری خطرے میںہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امدادی راستوں کی بندش اور مسلسل بمباری کے باعث غزہ کے شمالی حصوں میں امداد نہ پہنچنے سے صورتحال مزید ابتر ہو چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کی جون کے وسط میں جاری رپورٹ کے مطابق غذائی قلت کے نتیجے میں روزانہ دو سے تین بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ بی بی سی اردو کی خبر کے مطابق شمالی غزہ کے ایک ہسپتال میں چار دن کے دوران سات نومولود بچے بھوک اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کے باعث جاں بحق ہوئے۔ الجزیرہ کی جولائی کے پہلے ہفتے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کئی مائیں شدید کمزوری کے باعث اپنے نومولود بچوں کو دودھ پلانے سے قاصر ہیں جس کے نتیجے میں شیر خوار بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

رائٹرز کی ایک رپورٹ میں شمالی غزہ کی رہائشی ایک ماں کا انٹرویو شامل تھا جس میں ماں نے بتایا کہ اس کا تین ماہ کا بچہ دو دن سے کچھ کھا نہیں سکا اور اس کی سانسیں تیز چلنے لگی ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر بچے کمزوری کے باعث چل پھر بھی نہیں سکتے اور ماؤں کی گود میں ہی تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈینیشن آفس نے جون کے آخری ہفتے میں رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق غزہ کی ستر فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے اور دو لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امداد کا راستہ نہ کھولا گیا تو صرف چند ہفتوں میں غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اے ایف پی کی جون کی رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ ہسپتالوں کے بچوں کے وارڈز بھر چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ بچوں کا وزن دو ماہ کے بچے کے برابر ہے حالانکہ ان کی عمر چھ ماہ سے زیادہ ہے۔

پاکستانی اخبار ڈان کی رپورٹ میں لکھا گیاہے کہ ہسپتالوں میں مریض بچوں کی قطاریں لگی ہیں مگر ڈاکٹرز کے پاس دوا ئیں اور خوراک ختم ہو چکی ہے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو مرتا دیکھ رہے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بچے اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی رگوں میں ڈرپ بھی لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی مجموعی تعداد سات سو کے قریب پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر مائیں خود بھی کئی دنوں سے بھوکی ہیں اور ایسے میں ان کے بچوں کی جان بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

الجزیرہ کی جولائی کے پہلے ہفتے کی رپورٹ کے مطابق بعض مائیں بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا کھانا بھی انہیں دے رہی ہیں اور خود بھوکی رہتی ہیں۔ رپورٹ میں ایک تصویر شامل کی گئی جس میں ایک ماں اپنے نومولود کو دیکھ رہی ہے جس کی آنکھیں آدھی بند ہیں اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہسپتالوں کے باہر سینکڑوں خاندان خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں خوراک، پانی اور دوائیں کچھ بھی دستیاب نہیں۔

یہ رپورٹس محض رپورٹس نہیں یہ آٹھ ارب انسانوں کی بے حسی کی اجتماعی داستان ہے۔ یہ اعداد و شمار محض اعداد و شمار نہیں ہیں ان کے پیچھے ان ماؤں کی چیخیں ہیں جو پانچ پانچ دن سے بھوکی پیاسی اپنے بچوں کو بانہوں میں لیے بیٹھی ہیں اور ان کے لیے ایک گھونٹ دودھ تک میسر نہیں۔ ان کے پیچھے ان باپوں کی ٹوٹتی ہوئی امیدیں ہیں جو روزانہ کسی معجزے کی آس میں اسپتالوں کے دروازوں پر کھڑے رہتے ہیں مگر خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں۔ یہ صرف اخبار کے صفحات پر لکھے ہوئے ہندسے نہیں ہیں بلکہ یہ ان بچوں کے رکے ہوئے سانسوں کی گنتی ہے جو دودھ اور دوا کے انتظار میں مائوں کی بانہوں میں سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ یہ ان قبروں کے اعداد وشمار ہیں جو غزہ کی زمین پر ہر روز تازہ کھودی جارہی ہیں اور ان میں پھول جیسے معصوم بچوں کو دفن کیا جا رہا ہے۔ یہ اعداد وشمار وہ ننگی حقیقت ہیں جوچیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ انسانیت کا زوال کتابوں میں لکھی ہوئی کوئی کہانی نہیں رہا بلکہ یہ غزہ کی گلیوں میں کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہ اعداد وشمار خبردار کر رہے ہیں اگر آٹھ ارب انسانوں کے ضمیر نہ جاگے تو عنقریب یہ زمینی سیارہ کسی بہت بڑے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔