چودھری احسن اقبال منصوبہ بندی اور ترقیاتی امور کے وفاقی وزیر ہیں۔ انہوں نے ”اڑان پاکستان” کے نام سے پاکستان کی ترقی کا ایک تخیلاتی پروگرام کچھ عرصہ پہلے پیش کیا تھا۔ نہیں معلوم یہ بلندی کی طرف ہے یا یہ سفر ڈھلوان کی طرف جاری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے اوپر تلے جتنے غیر ملکی دورے کیے ہیں ہماری نظر میں یہ عالمی نہیں تو قومی ریکارڈ ضرور ہے۔ ہر دورے میں دل خوش کن تصویری مناظر دکھائے جاتے ہیں، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوتے ہیں، نیز پاکستان میں اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری کی نویدِ جاں فزا سنائی جاتی ہے، لیکن عملی میدان میں ہمیں اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا، بس ”آنیاں جانیاں” جاری رہتی ہیں جبکہ اسٹاک ایکسچینج کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بیرونی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
12جولائی کی صبح ایک ٹیلی ویژن پر مسلسل ٹِکر چل رہے تھے اور ان میں بتایا جا رہا تھا کہ وزارتِ خزانہ کے مرکزی کنٹرول یونٹ نے جولائی تا دسمبر 2024کے نصف مالیتی سال کی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق پاکستان کے پندرہ سے زائد حکومتی ملکیتی اداروں کا مجموعی نقصان 5900ارب روپے ہے۔ ان میں صرف چھ ماہ میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا خسارہ 153ارب، ریلوے کا26ارب اور پاکستان اسٹیل ملز کا 15ارب روپے ہے۔ صرف چھ ماہ کے پنشن کے واجبات 1700ارب روپے ہیں جبکہ اس مدت میں حکومت نے ان اداروں کو فعال رکھنے کیلئے 616ارب روپے کی امداد بھی دی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا مجموعہ خسارہ 2400ارب بنتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کل اندرونی وبیرونی قرضے 76ہزار ارب روپے ہیں۔ ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رول اوور قرضوں کے رہینِ منت ہیں، یعنی یہ محض سہارے (Back up) کیلئے ہیں۔رول اوور سے مراد واجب الادا قرضوں کی ادائی نہ ہونے کے سبب ان قرضوں کی تجدید کرناہے، یعنی خزانے میں نہ کچھ آیا نہ گیا اور قرض کا بوجھ ویسا ہی رہا۔ حکومتِ پاکستان اپنے زیرِ اہتمام چلنے والے جن قومی اداروں سے نجات چاہتی ہے ان کی صورتحال بھی تشویشناک ہے، ان کا مجموعی خسارہ 3200 ارب روپے بتایا جا رہا ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے: معیشت نادہندگی کے خطرے سے نکل آئی ہے، اس میں استحکام آیا ہے اور اب یہ ترقی کی جانب بڑھتی چلی جائے گی، یہ ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ آخری معاہدہ ہے، اس کے بعد ہم آئی ایم ایف کوہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دیں گے لیکن برسرِ زمین حالات ان دعووں کے برعکس ہیں۔ گندم، چاول اورکپاس سمیت زرعی پیداوار کے اشاریے منفی ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور سے اب تک چینی اور گندم ایک سے زائد بار برآمد کی گئیں اور پھر درآمد کی گئیں بلکہ پی ٹی آئی دور میں چینی کی برآمد پراربوں روپے عوام کے ٹیکسوں سے زرِ اعانت بھی دیا گیا۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے ملک کے درجہ اول کے صنعت کار سرمایہ داراور متمول طبقے کے لوگ ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ درآمد اوربرآمد کے اس عمل کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں کیونکہ برآمد کرتے وقت یہ بتایا جاتا ہے کہ گندم اور چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے اور جب برآمد کرلی جاتی ہے تو اچانک ہمارے منصوبہ سازوں پر آشکار ہوتا ہے کہ طلب کے مقابلے میں رسد کم ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اس لیے قیمتوں کو ایک حد میں رکھنے کیلئے درآمد ناگزیر ہوگئی ہے۔ پس جب درآمد کے بعد قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو پھر ذخیرہ اندوز اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یوں سائنٹفک طریقے سے غریب طبقات کی رگوں سے خون کشید کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، کوئی پرسانِ حال ہے اورنہ کوئی کسی کو جوابدہ ہے۔ ہمارا بجٹ بھی آئی ایم ایف والے بناتے ہیں، وہ ہماری محصولات کی مقدار طے کرتے ہیں، ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم ان کے احکام کی تعمیل پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر جب طے شدہ اہداف پورے نہیں ہوپاتے تو ان سے تخفیف کی التجا کرتے ہیں اور پھر وہ ہدف بھی پورا نہیں ہوتا۔ ایک بار میں نے طنزاکہا تھا: جب سب کچھ آئی ایم ایف نے طے کرنا ہے اور ہم نے صرف حکم کی تعمیل کرنی ہے تو باہر سے ماہرین بلانے کی کیا ضرورت، ایسا بجٹ تو ہمارے مدرسے کے طالب علم بھی بنا سکتے ہیں۔
گزشتہ سال پہلے نوید سنائی گئی کہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرنے والوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے مگر آخر میں اس ڈرائونے خواب کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ صرف ریٹرن جمع ہوئے، خزانے میں پیسہ بالکل نہیں آیا یا برائے نام آیا ہے۔ پارلیمنٹیرین، کابینہ کے ارکان، قومی اسمبلی کے اسپیکر، سینیٹ کے چیئرمین، اعلی عدلیہ کے ججوں اوربڑے منصب داروں کے مشاہروں میں پانچ گنا تک اضافہ کر دیا گیا ہے، خواجہ آصف کے بقول یہ معاشی فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔
ماضی میں گندم کے کاشتکاروں سے گندم خریدنے کیلئے کم از کم قیمت مقرر کی جاتی تھی تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو، گزشتہ سال سے اسے مارکیٹ کی طلب اور رسد کے اصول پر چھوڑ دیا گیا، حکومت درمیان سے ہٹ گئی، کاشت کاررل گئے، اس کے نتیجے میں اس سال گندم کی پیداوار کم ہوئی، پھر کسی کو نوازنے کیلئے گندم برآمد کی گئی اور اب درآمد کی جا رہی ہے، ہمارا حال یہ ہے:
پسند و ناپسند کا کوئی بھی ضابطہ نہیں
کبھی بھلا بھی برا، کبھی برا برا نہیں
ملک جس مالیاتی بحران میں مبتلا ہے، ہمارے منصوبہ سازوں کی جو دانش اور تدبیر سامنے آئی ہے وہ فقط یہی ہے کہ سابق قرضوں کی ادائی کیلئے مزید قرضے لینا ہیں اور یوں قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے بحرانوں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یا توجتنی چادر ہے، اتنے پائوں پھیلائیں اور یا اپنے داخلی ذرائع سے اپنی آمدن کو بڑھانے کیلئے کوئی تدابیر اختیار کی جائیں، ہمیں ایسے ماہرین کی ضرورت ہے۔ورنہ معین قریشی، جاوید برکی، شوکت ترین، اسد عمر،حفیظ پاشا، بیگم شمشاد اختر اور محمد اورنگزیب کو تو ہم آزما چکے ہیں۔ ہر دور کے ماہرین کے پاس ایک ہی حربہ ہوتا ہے کہ ملک کے جامد اثاثوں (مثلاً ائیرپورٹس، موٹرویز وغیرہ) پر صکوک جاری کیے جائیں۔ ظاہر ہے یہ بھی قرضوں میں اضافے ہی کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ ایسے صکوک سے کوئی صنعت قائم ہوتی ہے نہ روزگارکے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور نہ ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے۔ کئی بینکوں کے پاس نقد مالی ذخائر کافی مقدار میں ہوتے ہیں لیکن حکومت کے پاس ان کی سرمایہ کاری کیلئے کوئی حکمتِ عملی نہیں ہوتی۔ کثیر سرمائے والے لوگ صرف بلڈرز اور ڈویلپرز بننا چاہتے ہیں کیونکہ اس شعبے میں کالے دھن کو کھپانے کے مواقع سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور منافع کمانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ خان صاحب کی دلچسپی کا شعبہ بھی یہی تھا، اس لیے انہوں نے راوی کے کنارے ایک نیا شہر آباد کرنے کیلئے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RUDA) قائم کی تھی۔ اگرشہری آبادیوں کا پھیلائو اسی رفتار سے جاری رہا تو پچیس پچاس سال بعد زراعت کیلئے زمین سمٹتی چلی جائے گی اور ہم اشیائے خوراک کیلئے بھی دوسروں کے محتاج ہو جائیں گے۔
ہمیں مستقبل کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی ایک دیرپا حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، لازم ہے کہ شہری آبادیاں افقی سطح پر پھیلانے کی بجائے عمودی سطح پر پھیلائی جائیں، یعنی کثیر المنزلہ عمارتیں بنائیں۔ اس سے شہری منصوبہ بندی میں بھی آسانی ہوگی اور زمین کا اسراف پر مبنی استعمال بھی رکے گا۔ دسیوں بیسیوں کنال اور ایکڑوں پر مشتمل محلات پر بھی پابندی لگانی ہوگی۔