غزہ کی صورتحال انتہائی المناک اور تشویشناک موڑ پر آن پہنچی ہے،فلسطینی سرکاری میڈیا دفتر نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ایک لاکھ سے زائد بچوں کی زندگی آنے والے دنوں میں شدید خطرے میں ہے۔ ان میں چالیس ہزار شیر خوار بچے شامل ہیں جن کی عمر ایک سال سے بھی کم ہے اور جو فوری طور پر اجتماعی موت جیسے سنگین انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس اندوہناک صورتحال کی بنیادی وجہ قابض اسرائیل کی طرف سے کئی ماہ سے جاری محاصرہ، اشیائے خور و نوش کی شدید قلت اور ہر قسم کی بنیادی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ ادھر اسرائیلی قابض فوج نے بھوک سے بے حال فلسطینیوں کیلئے امداد لے جانے والی اٹلی کی کشتی حنظلہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایک ایسی خوفناک حقیقت ہے جو ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہے۔ غزہ کی محصور اور مظلوم آبادی پر جاری اسرائیلی جارحیت نے ظلم، جبر، بھوک، پیاس، نسل کشی اور اجتماعی سزا کے تمام تصورات کو مات دے دی ہے۔ فلسطین کے سرکاری میڈیا دفتر نے جو المناک بیان جاری کیا ہے، اس نے اس جاری سانحے کی سنگینی کو نمایاں کر دیا ہے، بیان کے مطابق غزہ میں ایک لاکھ سے زائد بچوں کی زندگیاں براہ راست خطرے میں ہیں، جن میں چالیس ہزار شیر خوار ایسے بھی ہیں جن کی عمر ایک سال سے کم ہے اور جو اگلے چند دنوں میں اجتماعی موت جیسے دردناک انجام سے دوچار ہو سکتے ہیں۔یہ خطرہ کسی قدرتی آفت کی وجہ سے نہیں، بلکہ اسرائیل کی دانستہ، منظم اور ظالمانہ محاصرے کا نتیجہ ہے۔ تقریبا دو سالسے جاری سفاکانہ اسرائیلی محاصرے نے محصور اہل غزہ کیلئے اشیائے خور و نوش، پینے کے پانی، ادویات، ایندھن اور ہر قسم کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی فراہمی کو مکمل طور پر روک رکھا ہے۔ انسانی المیہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ مائیں اپنے معصوم بچوں کو دودھ کی بجائے صرف پانی پلا رہی ہیں اور معصوموں کا حلق تر کرنے کیلئے صاف پانی بھی کہاں آسانی سے میسر ہے۔ اسپتال، طبی مراکز، کلینک سب کے سب یا تو تباہ ہو چکے ہیں یا بنیادی طبی وسائل سے محروم ہیں۔ روزانہ ایسے سینکڑوں کیسز درج ہو رہے ہیں جہاں شدید غذائی قلت کی وجہ سے بچے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔یہ وہ زندہ حقیقت ہے جس کا ساری دنیا بچشم سر مشاہدہ کر رہی ہے۔
مگر یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود دنیا اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ لاکھوں بچوں کو دانستہ فاقہ کشی اور بے بسی میں مبتلا کر کے خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ کیا بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے ضابطے صرف طاقتوروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں؟ آخر وہ کونسی وجہ ہے جو اسرائیل ہر قانون، ہر اخلاقی حد اور ہر انسانی ضابطے سے بالاتر ہے؟ اسی کے ساتھ قابض صہیونی فوج کی جانب سے اٹلی سے غزہ کیلئے امداد لے جانے والی کشتی حنظلہ پر قبضہ اور اس میں سوار بے گناہ بین الاقوامی کارکنوں پر اسلحہ تاننا بھی اس بات کا مظہر ہے کہ پوری دنیا اسرائیل کے سامنے بے بس ہے۔ اسرائیل جو چاہے کرے، اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ کسی میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ آگے بڑھ کر اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرے۔ یہ کیسی دنیا ہے کہ جہاں ایک طرف جمہوریت کا بول بالا ہے، انسانی حقوق کے نعرے اور امن و تہذیب کے دعوے ہیں، مگر ساتھ ہی ایک قابض طاقت نے اسی دنیا میں جنگل کا قانون نافذ کر رکھا ہے اور وحشی درندوں کی طرح تمام انسانی اصولوں کو روندتے ہوئے انسانوں کا شکار کر رہی ہے۔ مادلین کے بعد حنظلہ نامی عالمی امدادی کشتی کی کھلے سمندر سے براہِ راست لائیو اسٹریم میں جو کچھ دکھایا گیا وہ انسانی وقار کی پامالی، قانون کی تذلیل اور عالمی ضمیر کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا اور اس کے منافق سیاستدان اس بحث میں مصروف ہیں کہ غزہ میں ہونے والا ظلم نسل کشی ہے یا نہیں؟ یہ سفاکیت اور سنگدلی کی انتہا ہے کہ نسل کشی کیلئے ہزاروں انسانی لاشیں کافی نہیں سمجھی جا رہیں، بھوک اور پیاس سے دم توڑتے بچوں کی تصویریں دلیل نہیں بن رہیں اور اسرائیل کے کھلے جرائم پر سوال اٹھانا اب بھی ”یہود دشمنی” کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اسرائیلی قتلِ عام نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی انسان دوستی، جمہوریت پسندی اورامن و انصاف کے تمام دعوؤں کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔یہ پوری دنیا کے لیے شرم کا مقام ہے کہ بائیس لاکھ سے زائد انسانوں کو ایک قید خانے میں بند کر کے دانے دانے کوترسایا جا رہا ہے، ہر طرف سے ان کا رابطہ کاٹا جا رہا ہے، اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو حق دفاع کا نام دیا جا رہا ہے۔ تاریخ ظلم و ستم کے وقائع سے بھری ہوئی ہے، مگر آج کے انسان نے یہ واقعات نہیں دیکھے، تاہم غزہ پر بیتنے والی وحشت کو آج پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور پھر بھی خاموش ہے۔ یہ خاموشی درحقیقت اعانتِ جرم کے مترادف ہے اور ہم سب محصور و مظلوم غزہ کے مجرم ہیں!
عافیہ کیس کے حوالے سے وزیر خارجہ کا غیر محتاط بیان
گزشتہ دن وزیر اعظم شہباز شریف نے امریکا میں جرم بے گناہی کی سزا میں قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن محترمہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو شرف ملاقات بخشا اور انہیں ایک بار پھر حکومت کی طرف سے تسلیاں دیں، تاہم اس کے اگلے ہی دن امریکا میں موجود جناب وزیر اعظم کے نائب اور ملک کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک انٹرویو کے دوران کچھ اس قسم کی غیر محتاط بات کہہ ڈالی جس سے واضح ہوا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے تئیں حکومتی اشرافیہ کی اصل پوزیشن کیا ہے اور عوام کے سامنے ان کی ایکٹنگ کیا ہے؟ جناب اسحاق ڈار نے عافیہ صدیقی کیخلاف بوگس اور بے بنیاد کیس کو اپنے سیاسی حریف عمران خان کے کیس سے تشبیہ دے کر گویا اقرار کیا کہ جس طرح ان کے نزدیک بانی پی ٹی آئی پر قائم مقدمات اور ان کی اسیری جائز اور قانونی ہے، ایسی ہی پوزیشن ان کے نزدیک عافیہ صدیقی کے مقدمے اور ان کی غیر منصفانہ قید کی ہے۔ یہ ہیں ملک کے اس وزیرخارجہ کے خیالات جن کی ذمے داری عافیہ صدیقی کا دفاع اور ان کی غیر قانونی امریکی قید سے رہائی ہے، مگر وہ امریکا میں بیٹھ کر الٹا عافیہ کے تئیں قوم کا مقدمہ ہی کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ گو وزیر خارجہ نے وضاحت جاری کی ہے تاہم وہ ناکافی ہے، حکومت کو اس حوالے سے اپنی درست پوزیشن اس کیس کے تعاقب میں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگی۔