سلیب سسٹم کا خاتمہ کیا گل کھلائے گا؟

پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے زیادہ تر صارفین بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ تازہ ترین معلومات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں زیادہ تر لوگ افواہ سازوں کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں ٹھگوں، نوسربازوں، مداریوں اور مچھندروں کا کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ وہ بھنگ ملا کر میٹھے لڈو سوشل میڈیا صارفین کو کھلاتے ہیں اور سب مٹھائی سمجھ کر ان نشے والے لڈوں سے نا صرف اپنا پیٹ بھرتے ہیں بلکہ دوسروں کے منہ میں بھی زبردستی یہ لڈو ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ہر سال دیکھتے ہیں کہ ماہِ رمضان کی آمد پر اشیائے ضرورت کی چیزیں مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ 2017ء سے آج تک مسلسل رمضان شریف کے آغاز میں مہنگے پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی ہے۔ اس مہم میں وہ لوگ سب سے آگے ہوتے ہیں جو سستے پھل بھی افورڈ نہیں کر سکتے مگر وہ مہنگائی کے خلاف ثواب سمجھ کر ”جہاد” کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس مہم کے اصل بینیفشری وہ ہوتے ہیں جو کپڑا، جیولری، کاسمیٹکس اور اسی طرح کی آئٹمز عید کمانے کے لیے کئی گنا مہنگی کر دیتے ہیں۔ پھلوں کے علاوہ کسی دوسری آئٹم کی بائیکاٹ کی مہم کبھی شروع نہیں ہوئی۔ سوچیں گے تو وجہ سمجھ میں آ جائے گی۔

اسی طرح کی ایک مہم گزشتہ چند سالوں سے تواتر کے ساتھ چلائی جا رہی ہے کہ بجلی کے سلیب ریٹس ختم کیے جائیں۔ سوشل میڈیا پر اس موقف کو بار بار دہرایا جاتا ہے کہ بجلی کے زیادہ یونٹس استعمال کرنے والوں کو تو کاروباری اصول کے تحت کم ریٹ لگانا چاہیے لیکن ہمارے ہاں واپڈا نے الٹی گنگا بہا رکھی ہے۔ جتنے زیادہ یونٹس استعمال ہوتے ہیں بجلی کا ریٹ اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ کسی نے اصل حقائق کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔ بس ایک ہی مطالبہ بار بار دہرایا جا رہا ہے کہ بجلی کے سلیب ریٹس ختم کیے جائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت 200یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دے کر اپنی لاگت سے بھی بہت کم نرخوں پر انہیں بجلی دے رہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ 200یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 3کروڑ 70لاکھ بجلی صارفین میں سے یہ افراد ایک چوتھائی بنتے ہیں جنہیں بجلی کے نرخوں میں 60فیصد تک رعایت دی جا رہی ہے۔ یہ پروٹیکٹڈ صارفین کہلاتے ہیں۔ جونہی کوئی صارف 200یونٹس کی حد عبور کرتا ہے تو سزا کے طور پر اسے 6ماہ کے لیے نان پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ عوام بھی بڑی سیانی ہے۔ جن لوگوں کا بجلی کا خرچہ 200یونٹس سے زیادہ تھا ان میں سے کچھ نے اپنے گھروں میں بجلی کے 2میٹر لگوا کر خود کو پروٹیکٹڈ صارفین میں شامل کروا لیا۔ حکومت نے گزشتہ مہینے یہ فیصلہ کیا کہ جن گھروں میں ایک سے زائد میٹر لگے ہوئے ہیں وہاں سے ایک کے علاوہ باقی میٹر اتار لیے جائیں جس پر سوشل میڈیا میں طوفان آ گیا اور حکومت کو یہ کہہ کر یوٹرن لینا پڑ گیا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اب حکومت نے بجلی صارفین پر دوسرے زاویے سے وار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر اس پر عمل ہو گیا تو یہ وار صارفین کے لیے کاری اور حکومت کے لیے کارگر ثابت ہوگا۔

وفاقی سیکریٹری توانائی ڈاکٹر فخر عالم نے پبلک اکانٹس کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری کو ختم کر رہی ہے۔ مستقبل میں غریب افراد کا تعین 200یونٹس استعمال کرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کی بنیاد پر ہوگا۔ جو لوگ BISPمیں رجسٹرڈ ہوں گے انہیں 2027ء سے BISPکے فنڈ سے سبسڈی دی جائے گی یعنی دو سال تک وقت کے تمام ایاز اپنے آقا محمود کی صف میں شامل ہو کر اپنی خودی کو بلند کر سکیں گے۔ البتہ دو سال بعد بھکاریوں کی لائن میں لگ کر بجلی استعمال کرنے کی عیاشی پر خیرات لینے کے مستحق ٹھہریں گے۔ اس لحاظ سے 2027ء میں BISP دنیا کا سب سے بڑا امدادی پروگرام بن جائے گا۔

اللہ ان لوگوں کا بھلا کرے جنہوں نے سلیب سسٹم کے خلاف مہم چلائی اور ان کی حالت پر رحم کرے جو ان جانے میں اس مہم کا شکار اور حصہ بنے۔ مہم چلانے والوں کو بڑا شوق تھا کہ سب کو یکساں ریٹ پر بجلی ملے۔ ان کے نزدیک یہ سلیب سسٹم ظالمانہ اقدام تھا۔ اب آپ دیکھیے گا کہ جیسے ہی سلیب سسٹم ختم ہوگا بجلی کا ایوریج ریٹ فی یونٹ 40روپے کے قریب پہنچ جائے گا یعنی غریب کی بجلی 15سے 40روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گی جبکہ امیر لوگ جو اوسطاً 60روپے فی یونٹ بجلی استعمال کررہے ہیں وہ 60روپے سے کم ہو کر 40روپے فی یونٹ پر آ جائیں گے۔ گویا غریب کے لیے بجلی کی قیمت تین گنا بڑھ جائے گی جبکہ امیر کے لیے ایک تہائی کم ہو جائے گی۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے جن صارفین نے اپنے گھر میں دو میٹر لگوا رکھے تھے اب وہ دو میٹر بھی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے۔ دو سال بعد سے ہی سہی بینظیر انکم سپورٹ کے ”سرکاری بھکاریوں” کو تو کچھ نہ کچھ مل ہی جایا کرے گا ،سب سے زیادہ متاثر تو وہ سفید پوش طبقہ ہوگا جس کی محدود آمدن ہے مگر وہ اپنی عزتِ نفس کی خاطر BISPسے استفادہ نہیں کر رہا۔

سوشل میڈیا کا یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ بلاسوچے سمجھے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ نوسر باز بھنگ ملے لڈو کھلا کر زیادہ تر سوشل میڈیا صارف کے حواس مختل کر کے ان کے دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے۔ ابھی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا۔ سوشل میڈیا پر اب اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے بقائمی ہوش و حواس سلیب سسٹم کی بحالی کی مہم چلانا ہوگی ورنہ آدھی سے زیادہ آبادی کو BISPمیں خود کو رجسٹرڈ کروانا ہوگا۔