پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے بھرپور ہونے اور گوادر بندرگاہ کی وجہ سے عالمی اہمیت کا حامل اور عالمی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے سے ملک دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں اس صوبے میں اپنا کھیل کھیلتی آرہی ہیں۔ گوادر بندرگاہ کو آپریشنل کرکے یہاں سے پوری دنیا کے ساتھ تجارت کرنے سے پاکستان دشمن ممالک سخت ناراض ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان عوامی جمہوریہ چین اور جمہوری اسلامی ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ اپنے روابط اور تجارت کو بڑھائے۔ پاکستان دشمن ممالک نے بلوچستان میں مختلف عناصر کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کر کے انہیں نہ صرف سرمایہ اور ہتھیار فراہم کیے ہیں بلکہ بلوچستان میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے لسانی، فرقہ وارانہ اور قبائلی تعصبات کے شعلے بھڑکائے اور ایسی تنظیمیں بنوائیں جو اپنے آقاؤں کے ایجنڈے کے تحت قومی سلامتی کے ضامن اداروں کیخلاف منافرت پھیلا رہے ہیں۔
بلوچستان میں نسلی اورلسانی بنیاد پر سینکڑوں بے گناہ افراد کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر غیر ملکی قوتوں کے پروردہ آلہ کار تخریب کاروں نے خطرناک خونی کھیل کھیلا۔ وطن عزیز کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کئی اطراف سے سازشیں کی جا رہی ہیں لیکن سب سے خطرناک اور منظم سازش بھارت کے پروردہ فتنہ الہند اور خوارج کے گروہوں کی ہے، جو بظاہر مذہب، قوم یا علاقہ پرستی کے لبادے میں لپٹے ہوئے ہیں مگر حقیقت میں یہ دشمن کے آلہ کار اور دہشت گردی کے نمائندے ہیں جو کہ پاکستان میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ جیسی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
کبھی یہ مذہبی انتہا پسندی کے نام پر معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں، تو کبھی علیحدگی پسندی کا نعرہ لگا کر ریاست کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، کبھی معصوم پنجابیوں کو مار رہے ہیں اور کبھی چلتی بسوں میں بیٹھے لوگوں کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی اصل قوت بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ، اسلحہ اور تربیت ہے، جس کا سب سے بڑا منبع بھارت ہے۔
پہلگام واقعے کا جھوٹا پروپیگنڈا ناکام ہونے اور پاک بھارت جنگ میں بدترین ناکامی کے بعد شکست خوردہ بھارت کسی زہریلے سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ بلوچستان کی وزارت داخلہ کی تازہ رپورٹ نہایت تشویش ناک تصویر پیش کرتی ہے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران صوبے میں دہشت گردی کے 501واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 257بے گناہ افراد شہید اور730سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان میں 133سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جو وطن کے دفاع میں شہید ہوئے۔ ژوب کے قریب دو مسافر بسوں پر حملے کا واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔ مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کر کے انہیں صرف اس بنیاد پر قتل کر دیا گیا کہ ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں جیسے بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) اور بی ایل ایف (بلوچ لبریشن فرنٹ) ان واقعات میں ملوث پائی گئی ہیں۔ ان تنظیموں کو بھارت کی سرپرستی حاصل ہے اور عالمی اداروں کے بھی بعض حلقوں میں ان کے روابط کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بھارت، جس نے کبھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ڈھونگ رچایا، خود وہاں خون خرابے کو ہوا دے رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو منظم طریقے سے سپورٹ کر رہا ہے۔
فتنہ الہندوستان اور خوارج اس وقت پاکستان کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود پاکستان کی افواج، رینجرز، پولیس اور انٹیلی جنس ادارے مسلسل قربانیاں دے کر ملک کو ان فتنوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان قربانیوں کو مکمل طور پر کامیابی میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ان عناصر کے سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کیا جائے، چاہے وہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک۔ اس سب کے باوجود کچھ ضروری اقدامات ہیں جو کیے جا رہے ہیں لیکن ان پر مزید سختی سے کاربند ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس فتنے کو جڑ سے ہی اکھاڑ کر پھینکا جائے۔ خاص طور پر حساس علاقوں میں جدید نگرانی اور انٹیلی جنس نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ ان شر پسند عناصر کو شکنجے میں لایا جا سکے۔ پوری قوم کو ایک واضح اور مضبوط بیانیہ اپنانا ہوگا کہ دہشت گرد چاہے کسی بھی نسل، قوم یا مذہب کے نام پر سرگرم ہوں، وہ صرف دشمن کے ایجنٹ ہیں اور ان کے متعلق نرم رویہ اب ترک کرنا ہوگا۔ خاص طور پر ملک دشمن عناصر کو مالی، سیاسی یا سوشل میڈیا پر سہولت دینے والے افراد اور ادارے بھی برابر کے مجرم ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے تاکہ ملک میں امن قائم ہو اور اہل پاکستان ملک دشمن عناصر کی سازشوں اورغیر ملکی ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں سے مستقل طور پر محفوظ ہو سکیں۔ جبکہ خطے میں دہشت گردی کی روک تھام اور عالمی امن کی خاطر بھارت کو اس کی شرانگیز پالیسیوں سے روکنا عالمی برادری کی ناگزیر ذمہ داری ہے جوکہ عالمی برادری کو احسن طور پر ادا کرنی چاہیے۔