خبریں الگ الگ ضرور ہیں، مگر علاقائی سیاست میں ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ ایک جانب امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے، تو دوسری جانب جنوبی ایشیا میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور کمزور ہوتی ہوئی موجودی کے حوالے سے فکرمند نظر آتا ہے۔ خطے میں باہمی تعلقات کے فروغ نے امریکا کو جنوبی اور وسطی ایشیا میں مؤثر کردار سے عملاً باہر کر دیا ہے، جس کے ردعمل میں وہ ایک بار پھر افغان ائیربیس بگرام سے متعلق پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اب امریکا کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بگرام کو افغان حکومت کے حوالے کرنا اس کی بڑی غلطی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں کئی بار ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے بگرام ائیر بیس پر اس وقت بھی امریکا کنٹرول ہے اور وہ اس اہم اسٹریٹجک مقام سے خطے میں جاری سرگرمیوں بالخصوص چین اور روس کی معاشی پیش قدمی پر نظر رکھ سکتا ہے۔
ادھر کابل میں حال ہی میں سہ ملکی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اللہ کرے یہ بات کاغذی وعدوں سے آگے بڑھے۔ تین برس گزر چکے، لیکن ابھی تک صرف ایک یادداشت ہی دستخط ہوئی ہے۔ اسی طرح تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ پچھلے پندرہ سال سے زیرِ بحث ہے، مگر تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ اسی تسلسل میں اہم خبر یہ بھی ہے کہ افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی میزبانی میں پاکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ سہ فریقی سیاسی مشاورت کا اجلاس کابل میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط سے قبل ہوا۔ اجلاس میں مضبوط باہمی تعلقات، علاقائی استحکام، اقتصادی روابط اور مشترکہ تجارت کے فروغ پر زور دیا گیا۔
شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پائیدار تعاون کے ذریعے خطے کی پوشیدہ صلاحیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے عوامی خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ٹرانس افغان منصوبہ نہ صرف علاقائی روابط کو تقویت دے گا، بلکہ تینوں ممالک کے مشترکہ مفادات کا تحفظ بھی کرے گا۔ ان کے بقول مشترکہ مفادات مشترکہ ذمہ داریاں جنم دیتے ہیں اور یہ صرف مخلص، دیرپا اور مشترکہ کاوشوں سے ہی پوری کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئے افغانستان میں مستقل استحکام، اقتصادی ترقی اور علاقائی رابطہ کاری کے منصوبوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کو خطے کو جوڑنے والا مرکزی ملک بننا چاہیے۔ اجلاس کے اختتام پر تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے سہ فریقی سیاسی مشاورت کے تسلسل پر زور دیا۔
تاہم ایک قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ افغان حکومت شاید اب اس منصوبے کی اس شق سے پیچھے ہٹ رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ریلوے لائن مزار شریف سے کابل، کابل سے خوست اور خوست سے کرم ایجنسی کے مقام خرلاچی کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوگی۔ حالیہ اجلاس کے دوران ایک واٹس ایپ گروپ (جو خود کو امارتِ اسلامیہ کا اردو میڈیا نمائندہ گروپ کہتا ہے) کی جانب سے جو نقشہ جاری کیا گیا، اس میں خرلاچی کی بجائے پشاور کو منصوبے کا داخلی نقطہ دکھایا گیا۔ اس سے دو ممکنہ ابہام پیدا ہوتے ہیں: یا تو مذکورہ گروپ کو مکمل معلومات حاصل نہیں، یا پھر افغان حکومت کے پاس اس منصوبے پر کوئی جامع ورک پیپر موجود نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تین برس بعد بھی صرف فزیبلٹی اسٹڈی کی یادداشت پر دستخط ہو سکے ہیں۔
دوسری جانب بگرام ائیربیس سے متعلق خبروں کا سلسلہ بھی گرم ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار میڈیا پر دعویٰ کیا کہ بگرام ائیربیس میں بیرونی افواج اب بھی موجود ہیں۔ اس کے جواب میں افغان نمائندوں نے واضح کیا کہ اگر امارتِ اسلامیہ افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودی کو قبول کرتی، تو پھر گزشتہ بیس برسوں کی قربانیاں اور شہادتیں کس لیے تھیں؟ اگر ہم کسی بھی غیر ملکی افواج کو تسلیم کرتے، تو ہم سویت یونین کے قبضے کو بھی تسلیم کر لیتے اور امریکا و نیٹو افواج کی موجودی کو بھی مان لیتے۔
طالبان حکومت (امارتِ اسلامیہ) کا موقف ہے کہ افغانستان کی ایک انچ زمین پر بھی کسی غیر ملکی فوج کی موجودی قابلِ قبول نہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ دنیا سے تعلقات ضرور چاہئیں، لیکن وہ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی بنیادوں پر ہوں گے، نہ کہ عسکری۔ افغان قیادت نے عالمی برادری کو پیغام دیا کہ افغانستان میں کسی غیر ملکی فوجی کی موجودی نہ صرف ناقابلِ قبول ہے بلکہ یہ افواہیں بے بنیاد اور حقیقت سے یکسر دور ہیں۔
دراصل امریکا دنیا کے ہر خطے میں اپنی عسکری موجودی برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی عالمی بالادستی متاثر نہ ہو۔ بگرام ائیربیس سے متعلق پروپیگنڈا اسی خواہش کا تسلسل ہے، تاہم خطے کی دیگر طاقتیںخصوصاً روس اور چین اس کے سامنے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ روس نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے امریکا کی خطے میں ممکنہ واپسی کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی ہے۔
روس بخوبی جانتا ہے کہ اگر مستقبل میں بحیرہ اسود ایران اور آذربائیجان کے ذریعے اس کے تجارتی راستے بند ہو جاتے ہیں، تو اسے قازقستان کے راستے افغانستان اور وہاں سے پاکستان تک رسائی کی راہداری کی اشد ضرورت پڑے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ حقیقت کا روپ دھارتا ہے یا اگلے چار پانچ سال بھی محض فزیبلٹی رپورٹوں کی نذر ہو جاتے ہیں؟ سوال صرف ایک منصوبے کا نہیں، بلکہ علاقائی رابطہ کاری تجارت اور سب سے بڑھ کر افغان حکومت کے دیرپا استحکام کا ہے۔
جہاں تک فزیبلٹی رپورٹوں کا تعلق ہے تو دنیا میں ہزاروں ایسی رپورٹس موجود ہیں جن پر کبھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی مثال ریلوے منصوبہ ایم ایل۔ ون ہے، جسے چین نے ایک دہائی گزرنے کے باوجود شروع نہیں کیا اور خاموشی سے منصوبے سے الگ ہو گیا۔