جب دین اور سائنس ایک دوسرے کے مقابل نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تصدیق کرنے لگیں تو سچائی اور یقین کا نور مزید روشن ہو جاتا ہے۔ جی ہاں آج جدید طب جس نکتے پر بڑی تحقیق اور تجربے کے بعد پہنچی ہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات چودہ سو سال قبل نہایت سادہ، جامع اور حکیمانہ انداز میں بیان فرما دی تھی۔
اسلام، صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل طرزِ حیات ہے، جو جسم و روح دونوں کی فلاح کا ضامن ہے۔ جہاں جدید طب بیماری لگ جانے کے بعد اس کا علاج تجویز کرتی ہے، وہاں اسلام کی تعلیمات اتنی عمیق اور حکیمانہ ہیں کہ بیماری سے پہلے ہی اس کا دروازہ بند کر دیتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: کھا، پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف: 31)
غذا کے ماہرین کے مطابق یہ ایک آیتِ مبارکہ نصف طب پر مشتمل ہے، کیونکہ آج سائنس اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ بیشتر بیماریوں کی جڑ کھانے کی زیادتی میں چھپی ہے۔ اسی اصول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا: کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا۔ آدمی کیلئے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانے کیلئے، ایک پانی کیلئے اور ایک سانس کیلئے رکھے۔ (ترمذی)
یہ افراط ہی ہے جو آج ہمیں دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر اور موٹاپے کی دلدل میں دھکیل رہا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث ”حدیثِ ثلث” کہلاتی ہے۔ یہ حدیث دراصل خوراک، جسمانی صحت اور روحانی بالیدگی کا جامع اصول ہے۔ اس کے متعلق کسی طبیب کا قول ہے: اگر لوگ ان کلمات پر عمل کرلیں تو بیماریوں سے محفوظ ہو جائیں اور اسپتال اور دواخانے بند ہو جائیں۔
کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نے مجھے ایک دلچسپ بات بتائی۔ کہنے لگے چار شادیوں والے اسی سال کے ایک عرب بزرگ نے مجھ سے کہا: ”تم پاکستانی جب پلیٹ میں بریانی دیکھتے ہو تو پریشان ہو جاتے ہو کہ یہ پلیٹ میں کیوں پڑی ہے، پیٹ میں کیوں نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ تم لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی عمر 60 سے اوپر نہیں جاتی۔” بظاہر مزاح میں کی گئی اس بات کے پیچھے تلخ حقیقت چھپی ہے۔
ہمارے ایک اور مصری دوست نے بتایا کہ ان کی کمپنی میں کئی پاکستانی دل کے دورے سے جان سے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق ہمارے کھانوں میں مصالحے اور چکنائیاں کچھ زیادہ ہوتی ہیں۔ حیرت ہے کہ جب غربت کے باوجود ہمارا یہ حال ہے، تو خوشحالی میں کیا ہوگا۔ عرب حضرات کم کھانے کے علاوہ روزہ رکھنے کا بھی بہت اہتمام کرتے ہیں، چنانچہ ہمارا یہ مصری دوست بھی ہمیشہ پیر اور جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی اسی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے: ”پیٹ بھر کر کھانے سے بچو، کیونکہ یہ جسم کو خراب، سستی پیدا کرنے والا اور نماز سے غافل کرنے والا عمل ہے۔ (الجوع لابن ابی الدنیا)
یہ بالکل حقیقت ہے کہ شہوتِ بطن یعنی پیٹ کی خواہش، مہلک ترین تباہیوں میں سے ایک ہے۔ اسی سے دل و جسم کی کئی بیماریاں اور آفتیں جنم لیتی ہیں۔ اس کے پیچھے جنسی خواہش (شرمگاہ کی شہوت)آتی ہے، پھر انہی دو کو پورا کرنے کے لیے مال و مرتبے کی ہوس پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب مل کر دل میں ریاکاری، حسد، فخر اور تکبر جیسے امراض پیدا کرتے ہیں اور انسان گناہوں اور بے حیائی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ عربوں کا قول ہے: معدہ تمام بیماریوں کا گھر ہے اور پرہیز تمام علاجوں کا سردار۔
آج جب میڈیکل سائنس ہزاروں تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ روزمرہ کی خوراک کو محدود اور متوازن رکھنا ہی صحت کی ضمانت ہے، تو ہمیں مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی کہ دین اور سائنس دو مخالف قوتیں نہیں، بلکہ حقیقت کی دو ہم آواز گواہیاں ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم کھانے پینے میں اعتدال کو اپنا شعار بنائیں۔ والدین بچوں کو بچپن سے یہ شعور دیں کہ کھانا صرف لذت نہیں، بلکہ ایک امانت ہے۔ جس کا بے جا اور بے وقت استعمال جسمانی بیماری کے ساتھ روحانی زوال بھی لا سکتا ہے۔
حدیثِ ثلث محض طبی ہدایت نہیں، ایک روحانی نسخہ بھی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری نسلیں صحت مند جسم، روشن دل اور بیدار روح کے ساتھ زندگی گزاریں، تو ہمیں یہ اصول اپنی روزمرہ زندگی کا مستقل حصہ بنانا ہوگا۔