چین افغانستان تعلقات کا بدلتا منظر نامہ

اگست 2021میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین نے طالبان حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش میں طالبان کو گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا اور دونوں جانب سے وزرا کے دورے ہوئے ملاقاتیں ہوئیں ،وفود کا تبادلہ ہوا، اقتصادی معاہدوں کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی۔ چین وہ ملک ہے جس نے افغانستان میں سب سے پہلے اپنا سفیر تعینات کیا اور افغان طالبان حکومت کی جانب سے بھی سفارتی نمائندے کی بیجنگ میں تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ لیکن اب 2025میں چین اور افغانستان کامنظر نامہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ 2021کا جذبہ ماند پڑ تا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین بڑھتی ہوئی دوریاں احتیاط پسندی ہے یا سرد مہری۔ اب طالبان کے لیے چین سب سے قریبی اتحادی نہیں بلکہ ایک ممکنہ شراکت دار بن گیا ہے اور چین کے لیے افغانستان ایک سکیورٹی رسک بن چکا ہے۔ دوحہ معاہدے میں طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی بھی ملک کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ حملے جاری ہیں اور افغانستان ان دہشت گردوں کیلئے آماجگاہ بن چکا ہے۔ کابل میں چینی شہریوں اور منصوبوں پر ہونے والے حملے جن کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے ،ان خدشات کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ لہٰذا چین نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نکلنے کی ہدایت کی۔ ابتدا میں طالبان نے بھی چین کو اپنا سب سے اہم پارٹنر قرار دیا تھا۔ اس وقت چین کی جانب سے افغانستان کے لیے بی آر آئی توسیع اور اقتصادی تعاون کی امیدیں ظاہر کی گئیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چین نے افغانستان میں عملی منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا۔ نہ کوئی بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ شروع کیا گیا نہ ہی سی پیک کی توسیع عمل میں آئی۔ زمینی حقائق طالبان سے وابستہ امیدوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکے۔

چین میں سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد اس حوالے سے بڑی پیش رفت کا باعث بنا اور چین نے پاک افغان حکومتوں کے درمیان ایک ایسے ایجنڈے کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا جس کے تحت دوطرفہ ترقی کے عمل اور علاقائی استحکام کو امن کے قیام سے منسلک کیا۔ طالبان انتظامیہ کو باور کرایا گیا کہ مضبوط افغانستان امن اور ترقی سے مشروط ہے اور اس حوالے سے چین اور پاکستان کا کردار اہم ہو گا۔ اگر افغانستان پاکستان کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دیتا ہے تو ممکن ہے چین بھی طالبان حکومت کے ساتھ اپنی محتاط پالیسی کو دوبارہ ترتیب دے اور 22ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کو عملی جامہ پہنا دے۔ 2021کے اوائل میں افغانستان چین کیلئے سرمایہ کاری کا مرکز رہا ہے۔ چین افغانستان کے معدنی وسائل خاص طور پر لیتھیم اور تانبے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے افغانستان میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تحت کئی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا تاہم افغانستان میں سکیورٹی کی غیر یقینی صورتحال حکومتی عدم استحکام اور طالبان کے اندرونی اختلافات ان منصوبوں کے التوا کا باعث بن رہے ہیں۔

چین سے افغانستان کا محتاط رویہ اس کی سٹریٹجک سوچ کی عکاسی کرتا ہے بلکہ طالبان کی غیریقینی حیثیت پر سوال بھی اٹھا رہا ہے۔ چین کی افغانستان پالیسی ہمیشہ محدود نوعیت کی رہی ہے۔ بیجنگ نے واضح طور پر سکیورٹی انسدادِ دہشت گردی اور انسانی بنیادوں پر امداد کو ترجیح دی۔ معاشی سطح پر سنجیدہ سرمایہ کاری صرف اسی صورت ممکن نظر آتی ہے جب افغانستان مستحکم اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ریاست کے طور پر ابھرے۔ 2022میں چین نے تونچی اقدام کے تحت ریجنل رابطے کی جو حکمت عملی پیش کی وہ پہلے سے موجود نظریات کی توسیع تھی نہ کہ کوئی نئی حکمتِ عملی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین افغانستان کو ایک تجرباتی میدان بنانے سے گریزاں ہے۔ چین افغانستان دونوں کے مابین 92کلو میٹر طویل سرحد بھی موجود ہے لیکن چین نے افغانستان کے ساتھ فاصلہ برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی جسے وہ Three respect and three news پالیسی کے طور پر بیان کرتا ہے۔ چین کو افغانستان میں عدم استحکام پر تشویش ہے اور سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں کو افغان سر زمین پر محفوظ پناہ گاہوں پر چین نے خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔ دوسری جانب چین کے محتاط رویے کے برعکس طالبان نے ایک ملٹی پولر خارجہ پالیسی اپنائی۔ امیر خان متقی جیسے اعلی عہدیداران نے ایران قطر متحدہ عرب امارات روس حتی کہ بھارت کے ساتھ بھی مستقل سفارتی روابط استوار کیے ہیں۔

چین کے صدر شی جن پنگ سے آج تک اعلی سطح کی ملاقات نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ چین طالبان کو رسمی سطح پر تسلیم کرنے سے احتیاط برت رہا ہے۔ طالبان اس وقت چین کو ایک ممکنہ شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں مگر ان کا انحصار صرف بیجنگ پر نہیں رہا۔ وہ اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مختلف بلاکس میں متوازن طور پر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی چینی اہلکاروں پر ممکنہ حملے اور طالبان کی حکمرانی کا غیرمتفقہ ڈھانچہ یہ سب عوامل چین کے لیے باعثِ تشویش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیجنگ نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر کسی سرمایہ کاری یا سیاسی دباؤ کی کوشش نہیں کی۔ چین کی پالیسی اب واضح ہو چکی ہے فی الحال انتظار کرو حالات مستحکم ہوں تو واپسی ممکن ہے۔

افغانستان میں چین کی واپسی اور اس کا سرگرم کردار تین عوامل پر منحصر ہے: (1) طالبان کو عالمی سطح پر باضابطہ تسلیم کیا جائے۔ (2)افغانستان میں سکیورٹی صورتحال مستحکم ہو۔ (3)پاکستان ایران اور روس جیسے اہم ممالک بھی چین کے ساتھ مل کر افغانستان میں کردار ادا کریں۔ جب تک یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں چین کی افغان پالیسی محدود اور محتاط ہی رہے گی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں چین کا کردار ابھی ناپختہ محتاط اور وقت کے تابع ہے۔ اگرچہ چین نے طالبان کے نامزد سفیر کو قبول کیا ہے اور کابل میں اپنا سفیر مقرر کیا ہے لیکن اس نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ احتیاطی رویہ ظاہر کرتا ہے کہ چین طالبان کی حکمرانی کی پائیداری اور ان کے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کے بارے میں اب بھی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ چین چاہتا ہے کہ طالبان انسانی حقوق اور دیگر عالمی معیارات پر عمل کریں تاکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو سکے۔ بیجنگ اور کابل کے تعلقات ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ بنانے کا خواہشمند چین اب خود انتظار کے موڈ میں ہے۔ نئے عالمی تناظر میں دنیا ایک نئے نظام کی طرف جا رہی ہے۔ نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دیا جا رہا ہے اور خطے میں نئی صف بندیاں قائم ہو رہی ہیں؛ چنانچہ اس بدلتے عالمی نظام میں معاشی و سیاسی مرکز یورپ امریکا کے بجائے ایشیا کی جانب منتقل ہو رہا ہے اور اس میں چین سب سے بڑے اور ابھرتے ہوئے کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایک طرف چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور معاشی ترقی اور دوسری طرف بھارت کی پراکسی وار اور امریکا اور اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ۔ ایسے میں چین پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کی مضبوطی معاشی ترقی کے عمل دہشت گردی کے سدباب اور علاقائی سیاست میں باہم جڑے رہنے کا باعث ہو گی اور علاقے کا چوہدری بننے کے خبط میں مبتلا بھارت جو افغان سرزمین کو پراکسی کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے کیلئے مایوسی اور شکست کا سبب بنے گی۔