عَجبُ الذَّنَب (Coccyx) عربی اصطلاح ہے جس کا معنی ہے ریڑھ کی ہڈی کا آخری حصہ ۔ یہ انسانی جسم کا وہ حصہ ہے جہاں انسانی جنین کی تخلیق ہوتی ہے۔ جدید سائنس بتاتی ہے کہ ابتدائی جنینی خلیہ اسی حصے کے قریب تشکیل پاتا ہے جو بعد میں پورے جسم کے اعضاء اور بافتوں کی بنیاد بنتا ہے۔ انسان کا بائیو ڈیٹا، DNA، جینیاتی معلومات حتیٰ کہ فنگر پرنٹس تک کی تشکیل کا بنیادی کوڈ اسی حصے میں درج ہوتا ہے۔
حیران کن حقیقت یہ ہے کہ انسانی جسم کا یہ حصہ کبھی گلتا سڑتا نہیں۔ دور جدید میں سائنسدانوں نے عَجبُ الذَّنَب پر متنوع تجربات کیے ہیں مثلاً انہوں نے اسے طاقتور تیزاب میں حل کیا ہے، آگ میں جلانے کی کوشش کی ہے اور شدید دباؤ اور تابکاری کا نشانہ بنایا ہے مگر یہ حصہ اپنی اصل حالت میں برقرار رہتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق Coccyxمیں ایسی حیاتیاتی اور سالماتی ساخت پائی جاتی ہے جو اسے صدیوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر پورا جسم مٹی میں گل سڑ جائے تب بھی یہ حصہ محفوظ رہتا ہے۔
DNAکے بارے یہ حقیقت مسلم ہے کہ یہ پورے جسم کی ساخت، صفات، شناخت حتیٰ کہ شخصی عادات کا کوڈ اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ DNAہر ہڈی میں موجود ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا مکمل بائیو ڈیٹا، اس کی پیدائش، نسل، صفات حتیٰ کہ فنگر پرنٹس تک ہزاروں سالوں بعد بھی اس عجب الذنب کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ جدید سائنسی تحقیق اسلام کی اس بنیادی سچائی کا واضح اعتراف ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ ہر عہد کے کفار اور ملحدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ کیا مرنے کے بعد ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، قرآن اس اعتراض کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
ء َاِذَا مِتنَا وَ کناَ تُرَابًا وَّ عِظَامًا ء َاِنَّا لَمَبعُوثُونَ۔ اَوَ اٰبَآؤُنَا الاَوَّلُونَ۔
”کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور کیا ہمارے باپ داداؤں کو بھی؟” یہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے کفار کا اعتراض تھا۔ وہ موت کی حقیقت کو تسلیم کرتے تھے مگر انہیں موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر اعتراض تھا۔ جدید ملحدین کا مسئلہ اس سے بھی شدید نوعیت کا ہے، انہوں نے سرے سے موت کا ہی انکار کر دیا ہے اور یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ ہم عنقریب موت پر قابو پا لیں گے۔ ان جدید و قدیم ملحدین کے اعتراض کا جواب قرآن نے تو بہت پہلے دے دیا تھا لیکن اب جدید سائنس نے بھی اس قرآنی جواب کی توثیق کر دی ہے کہ انسان کی عَجبُ الذَّنَب کبھی گلتی سڑتی نہیں اور اس میں دوبارہ انسانی تخلیق کا بھرپور پوٹینشل اور ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔
قرآن کے ساتھ حدیث میں بھی عَجبُ الذَّنَب (Coccyx)کے حوالے سے حیران کن انکشافات موجود ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابنِ آدم کا پورا جسم مٹی کھا جائے گی سوائے عَجبُ الذَّنَب کے، اسی سے انسان تخلیق کیا گیا ہے اور قیامت کے دن اسی سے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔” (صحیح مسلم حدیث نمبر 7415)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”زمین انسان کے ہر عضو کو کھا جائے گی سوائے عَجبُ الذَّنَب کے اسی سے قیامت کے دن اس کی دوبارہ تخلیق ہوگی۔” (صحیح مسلم حدیث نمبر 7416)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ نے دوبارہ انسانی تخلیق کا ممکنہ پروسس بھی بتایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ” قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک خاص بارش برسائے گا جس سے انسان دوبارہ زندہ ہوں گے بالکل اسی طرح جیسے بیج سے پودا اگتا ہے” (صحیح مسلم حدیث نمبر 7414)
اسی سے ملتا جلتا مفہوم ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ہے، آپ نے فرمایا: ”اللہ آسمان سے پانی نازل فرمائے گا، پھر لوگ اس سے ایسے اگیں گے جیسے سبزہ اگتا ہے۔ انسان کے جسم میں ایک ہڈی ہے جو نہیں گلتی وہ عجب الذنب ہے، اسی سے قیامت کے دن وہ دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔” (ایضا)
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث جدید سائنسی حقائق کے ساتھ مل کر انسانی زندگی کا ایک ایسا مربوط تصور پیش کرتی ہیں جو انسان کی ابتدا اور انجام کو ایک مسلسل اور مربوط کائناتی نظام کا حصہ بناتا ہے۔ یہ الہامی اور مشاہداتی سچائی انسانی تاریخ کے اس بڑے سوال کو بخوبی ایڈریس کرتی ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور یہ سچائی دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لیے باعثِ حیرت ہے کہ چودہ صدیاں قبل دی گئی ایک نبوی خبر آج تجربہ گاہوں اور ڈی این اے لیبارٹریز میں سچ ثابت ہو رہی ہے۔