دوسرا حصہ:
حکومت ایک طرف انتظامی اخراجات کو کم کرنے اور سیکرٹریٹ کے تحت ڈویژنوں کی تعداد کم کرنے کے دعوے کررہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے اداروں کے قیام کا سلسلہ بھی جاری ہے، یہ تضاد ناقابلِ فہم ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے موجودہ صدارتی دورانیے کے آغاز ہی میں اپنے کاروباری دوست اور مالی نوازشات کرنے والے امیر ترین شخص ایلون مسک کو اپنا مشیر مقرر کیا تاکہ حکومت کے انتظامی اخراجات کو کم سے کم کیا جائے۔ انہوں نے کافی حد تک چھانٹی بھی کی۔ ہمارے ہاں اس چھانٹی کو ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر ان کی دوستی کو نظر لگ گئی۔ پنجابی کا ایک شعر ہے: لائی بے قدراں نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے۔ پس ان کی دوستی بھی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ ٹرمپ چونکہ کاروباری شخص ہیں اس لیے وہ بین الممالک تعلقات کو بھی ڈیل کا نام دیتے ہیں۔ ڈیل کاروباری لین دین کو کہتے ہیں۔ پس ان کے نزدیک امورِ مملکت بھی کاروبار ہے اور اسے وہ نفع ونقصان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ وہ دوسرے ممالک کو دبائو میں لانے کیلئے کسٹم ڈیوٹی یعنی درآمدی محصولات میں اضافے کر رہے ہیں کہ اس سے ان کے ریاستی مالی وسائل میں اضافہ ہوگا۔ حالانکہ امریکا کی سرپرستی ہی میں عالمی تنظیمِ تجارت (WTO) بنایا گیا تھا، اس کا مقصد کسٹم ڈیوٹی یعنی داخلی محصولات کو ختم کرنا تھا تاکہ صنعتی پیداوار کی دوسرے ممالک کی منڈیوں تک رسائی آسان ہو۔ مگرصدر ٹرمپ سیماب صفت اور متلون مزاج شخصیت ہیں، ان کے مزاج میں ٹھیرائو نہیں ہے، فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔
ہم معاشی ماہر نہیں ہیں لیکن اگر داخلی محصولات میں اضافہ کیا جائے گا تو حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں اضافی آمدنی یقینا مل جائے گی مگر اس کا مالی بوجھ اس ملک کے صارفین پر پڑے گا۔ پس ہم منتظر ہیں کہ امریکا میں اس کا ردِعمل کیا آتا ہے، آیا اسے امریکی عوام میں پذیرائی ملے گی اور وہ اس بوجھ کو بخوشی قبول کر لیں گے یا مزاحمت کریں گے۔ ہمارے ہاں وزیروں کو کھپانے کے لیے پرائمری تعلیم کے لیے ایک وزیر اور ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم کے لیے دوسرا وزیر مقرر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تعلیمی نظام میں وزیروں کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہوتا کیونکہ تعلیمی نصاب، اداروں کا الحاق، امتحانات کا انعقاد اور سندات کا اجرا تعلیمی بورڈوں اور یونیورسٹیوں کا کام ہوتا ہے۔ وزارت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ اسی طرح مغربی ممالک میں وزیرِ اطلاعات نام کا کوئی عہدہ نہیں ہوتا کیونکہ ہر وزارت اپنی پالیسی اپنے ترجمان ہینڈ آئوٹ پریس ریلیز یا پریس کانفرنس وغیرہ کے ذریعے عوام تک پہنچاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں وزارتِ اطلاعات بھی ایک پُرکشش عہدہ ہے کیونکہ وزیر اطلاعات کو دوسرے وزرا کے مقابلے میں رونمائی کا موقع زیادہ ملتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں رحمان ملک صاحب وزیر داخلہ تھے اور ان کے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ تعلقات بڑے خوشگوار تھے، کیونکہ بندگانِ اغراض کو وزیرِ داخلہ سے اکثر واسطہ پڑتا ہے۔ ملک صاحب کو اسلام آباد سے کراچی آنا ہوتا تو ایک میڈیا ٹاک اسلام آباد ایئرپورٹ پر کرتے اور دوسری کراچی ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد۔ اسی لیے ایک بار اس وقت کے وزیراعظم جناب سید یوسف رضاگیلانی نے کہا تھا: ملک صاحب! ہم بھی آپ کے برابر میں کھڑے ہو جاتے ہیں، آپ کی برکت سے ہماری تصویر بھی میڈیا پر آ جائے گی۔ یہ کہنا تو طنزا تھا لیکن حقیقت پر مبنی تھا۔
یہی صورتحال وفاقی حکومت کی ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف اکثر مصروف فعال اور متحرک نظر آتے ہیں لیکن عوام کیلئے کوئی ریلیف فراہم کرنے کے بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی معاملات پر ان کی گرفت مضبوط نہیں ہے اور بڑے صنعتکار سرمایہ دار اور تاجر حکومت کی پالیسیوں کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے گندم اور چینی کی درآمد وبرآمد کے پیچھے الف لیلہ جیسی کہانیاں شبہات اور بدگمانیاں ہیں لیکن حکومت کا کوئی ذمہ دار سامنے آکر پوزیشن واضح کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ حکومت مہنگائی کی شرح میں کمی کی نوید سناتی رہتی ہے، یہ اچھی بات ہے کہ مہنگائی کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آگئی ہے، لیکن اس میں بھی ایک فنکاری ہے۔ حکومت اپنے آج اور کل کا تقابل کرتی ہے، حالانکہ اصل تقابل یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت اشیائے صرف کے دام کیا تھے اور آج کیا ہیں۔ اس تقابل سے صحیح تصویر سامنے آئے گی۔ محض اعداد وشمار کے گورکھ دھندے سے عوام کی تسکین نہیں ہو گی کیونکہ وہ تو روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کو بھگت رہے ہیں۔
ان ساری مشکلات کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ 16جولائی تک ایک لیٹر پٹرول پر ٹیکس 78 روپے ہے۔ یہ طالبعلم، مزدور، اخبار فروش، بائیک چلانے والے، ٹیکسی یا پرائیویٹ کار چلانے والے پبلک ٹرانسپورٹ حتی کہ ماچس کی ڈبیا لینے والے سمیت سب کو دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں اشیائے صرف پر سیلز ٹیکس کی شرح 18فیصد ہے اور یہ بوجھ صنعتکار سرمایہ دار اور تاجر پر نہیں پڑتا بلکہ عام آدمی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ ٹیلی فون، بجلی، گیس، موبائل وغیرہ سب پر عام آدمی کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ متمول طبقات، بڑے بڑے صنعتکاروں، سرمایہ داروں، تاجروں اور جاگیرداروں پر ان کی اصل آمدنی پر براہِ راست ٹیکس عائد کیے جائیں، مگر حکومت ان کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ پس دعوے بڑے کیے جاتے ہیں مگر ہر حکومت یہ بھاری پتھر چوم کر رکھ دیتی ہے۔
نیز ہر دور میں حزبِ اختلاف والے ریاست اور ملک کے دیرپا مفاد کے ساتھ کھڑے ہونے اور عوام کو حقائق سے آشنا کرنے کے بجائے مقبولِ عام بیانات دیتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور حکومتِ وقت کی جانب سے نظامِ معیشت میں کوئی دیرپا جوہری تبدیلی لانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ امریکا اور مغربی ممالک میں ہم نے دیکھا ہے کہ تمام تر مہنگائی کے باوجود وہاں کی حکومتیں بنیادی ضرورت کی اشیا کو حتی الامکان عوام کی پہنچ میں رکھتی ہیں۔ یوکرین اور شرقِ اوسط کی جنگ کی وجہ سے مہنگائی عالمی سطح پر یقینا بڑھی ہے لیکن ان ممالک میں یہ اشیاء عوام کی قوتِ خرید سے باہر نہیں ہوتیں۔ اس لیے وہاں ہماری طرح بڑے پیمانے پر کوئی ردِعمل یا بے چینی پیدا نہیں ہوتی۔ امریکا اپنے نیٹو اتحادیوں پر دفاعی بجٹ میں اضافے کیلئے دبائو ڈالتا رہتا ہے، اگر وہ امریکا کی فرمائش پر غیرمعمولی اضافہ کریں تو انہیں اپنے فلاحی اور سماجی بہبود کے نظام کو محدود کرنا پڑے گا۔ اس سے عوام میں ردعمل پیدا ہوگا، اس لیے وہ حکومتیں دفاعی بجٹ میں حالات کی مجبوری کے تحت اضافہ بھی کرتی ہیں تو انتہائی سست رفتاری سے اپنی جی ڈی پی کے دوتین فیصد سے آگے نہیں جاتیں۔
ہمارے ملک کے مسائل کا حل یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں مل کر عوام کو حقیقتِ حال سے آگاہ کریں۔ انہیں خوش نما اور پرفریب نعروں سے گمراہ نہ کریں۔ نیز بیس سال کیلئے قلیل المدت اور طویل المدت معاشی پالیسی بنائیں اور سب اس کی ذمہ داری قبول کریں۔ حکومت کی تبدیلی سے پالیسی تبدیل نہ ہو۔ اگر ہم اس شعار کو اپنا لیں تو فوری طور پر تو نہیں مگر اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ دس بیس سال کے اندر ہم اپنے قرضوں کے بے انتہا بوجھ سے کافی حد تک چھٹکارا پا لیں گے۔ لوگ حقائق کو قبول کرنے کے عادی ہو جائیں گے، محنت کریں گے اور صلہ پائیں گے۔ نیز چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کا جال پھیلایا جائے اور ان میں اعلیٰ معیار کی ایسی مصنوعات تیار کی جائیں جو برآمدی مقاصد کے لیے ہوں۔ ہمارا زرِ مبادلہ کا توازنِ ادائیگی جو انتہائی غیرمتوازن ہے، امید ہے کہ وہ بھی قابو میں آجائے گا۔ الحمدللہ علی احسانہ! پاکستان میں امکانی استعداد بہت ہے، ہمارے لوگ ذہین ہیں، محنت کش ہیں اور یہی لوگ بیرونِ ملک جاکر اعلیٰ کارکردگی دکھاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی لازم ہے۔