اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تمام انسانوں کو کائنات میں غور وفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ جابجا حکم ہے کہ تم کائنات اور اس میں موجود چیزوں میں مشاہدہ کرکے غور وفکر کیوں نہیں کرتے ہو؟
جن قوموں نے کائنات میں گہرا غور وفکر کیا انہوں نے کامیابی کا راز پالیا۔ عرف عام میں جب لفظ ”کامیابی” بولا یا لکھا جاتا ہے تو مسلمانوں کے علاوہ لوگ اسے صرف دنیاوی اور مادّی ترقی ہی سمجھتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کے ہاں دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی ترقی اور کامیابی مراد ہوتی ہے۔ بہت سارے لوگ ہیں جو اس دنیا کو صرف بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش کے ساتھ اس دنیا کو سمجھنے کی سعی بھی کرنی چاہیے۔
جو انسان ربّ کائنات کے مسلّمہ اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدوجہد کرتا ہے، غور و فکر کرتا ہے، گہرا تدبر کرتا ہے، سوچتا ہے۔ اپنے آپ کو بدلنے کی مشقت برداشت کرتا ہے، انسانوں کی آسانی کے لیے طرح طرح کی ایجادات کرتا ہے وہ ضرور کامیاب ہوجاتا ہے۔ دنیا کو بدلنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی بھی سعی کرنی چاہیے۔ تبھی زندگی میں وہ نظم و ضبط قائم ہوسکتا ہے جو کائنات کے قیام اور دوام کا ضامن ہے۔ اس کائنات کے ابدی اصولوں میں سے ایک اہم ترین اصول مستقل مزاجی سے کام کرنا بھی ہے۔
اگر ہم کامیاب سمجھے جانے والے افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے وہ سب مستقل مزاجی سے کام کرنے کے عادی تھے۔ اس پر ایک دو نہیں سیکڑوں ہزاروں سچے واقعات شاہد ہیں، ان میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں۔ ایک استاذ اپنے شاگردوں کے ساتھ کسی اہم ترین مشن پر کام کررہا تھا۔ بار بار ناکامی ہو رہی تھی۔ جب ناکامی ہوتے ہوتے مایوسی کی گھٹا چھانے لگی تو استاذ اپنے شاگردوں کو ایک پہاڑ کی اوٹ میں لے گیا۔ وہاں بیٹھ کر سستانے لگے۔ اچانک استاذ کی نظر ایک ایسی جگہ پر پڑی جہاں سے پانی کا ایک ایک قطرہ اوپر سے نیچے کی طرف گر رہا تھا۔ نیچے سخت ترین چٹان تھی۔ پانی کے ایک قطرے کے مسلسل گرنے کی وجہ سے نیچے پڑی سخت ترین چٹان میں بھی سوراخ ہوگیا تھا۔ دانا استاذ نے اپنے شاگردوں کو ادھر متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھیں صرف پانی کے ایک قطرے نے سخت ترین چٹان میں بھی سوراخ کر دیا ہے۔ آپ خود سوچیں بھلا پانی کا ایک قطرہ سخت ترین چٹان میں کیسے سوراخ کر سکتا ہے؟ آئیں! پہلے انفرادی طور پر سب غور و فکر کریں، اور پھر اجتماعی طور پر سوچیں گے۔
جب سب نے مل کر سوچنا شروع کیا تو استاذ نے گتھی سلجھاتے ہوئے کہا: ”اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے پانی کے قطرے کا مسلسل اور مستقل گرتے رہنا۔ ہمت نہ ہارنا ہے۔ چلو اٹھو! ہم چلتے ہیں، محنت اور مستقل مزاجی سے اپنے کام کا آغاز پھر سے کرتے ہیں اور اس وقت تک کام کرتے رہیں گے جب تک کہ کامیابی نہیں ملتی۔” چنانچہ جب استاذ اور شاگردوں نے عہد کر لیا اور پھر مستقل مزاجی سے لگے رہے تو کامیابی نے ان کے قدم چوم لیے اور وہ اپنے اہم ترین مشن میں کامیاب ہوگئے۔
مستقل مزاجی پر ایک اور سچا واقعہ سنیں۔ اسکاٹ لینڈ کے ایک بادشاہ کا نام ”بروس” تھا۔ ”بروس” ایک جنگجو اور مہم جو بادشاہ شمار ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ اپنے دشمنوں پر فتح پا لیتا تھا، لیکن ایک مرتبہ اسے بڑی شکست ہونے لگی اور یہ ہمت ہار کر پہاڑ کی غار میں جا کر بیٹھ گیا۔ یہ غار میں بیٹھا ہوا اپنی شکست پر ندامت کے آنسو بہا رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اِدھر اُدھر دیکھنے لگا تو اس کی نظر ایک مکڑی پر پڑی۔ یہ مکڑی ایک باریک تار اور جالے کے ذریعے اوپر چڑھنا چاہتی ہے، لیکن گر جاتی ہے۔ پھر چڑھتی اور گر جاتی ہے۔ تھوڑی دیر آرام کرتی اور ہمت کرکے پھر چڑھنے لگتی ہے، پھر کچھ اوپر جاکر گر جاتی ہے۔ ایک سو مرتبہ ایسا کرنے کے بعد بالآخر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کا بادشاہ ”بروس” یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوتا ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ جب ایک مکڑی نے ہمت نہ ہاری تو میں کیوں دل برداشتہ ہوکر اور ہمت ہار کر پہاڑ کی غار میں آکر چھپ گیا ہوں۔ مجھے یہ لڑائی دوبارہ لڑنی چاہیے۔ وہ یہاں سے اٹھا اور ”ٹرائی اگین، ٹرائی اگین” کہتا ہوا اپنے دشمن پر ٹوٹ پڑا۔ یہاں تک کہ فتح یاب ہوگیا۔ ناکامی اور شکست کامیابی اور فتح میں تبدیل ہوگئی۔
ایک اور واقعہ بھی سنیے۔ امیر تیمولنگ بڑا بہادر اور جنگجو حکمران گزرا ہے۔ ایک مرتبہ تھک ہار کر امیر تیمور لنگ کسی درخت کے سائے تلے بیٹھا سستا رہا تھا۔ ان دنوں امیر تیمور لنگ کو سخت مخالفتوں کا سامنا تھا۔ مخالفین پر قابو نہیں پایا جا رہا تھا۔ دشمنوں کی سازشوں سے تنگ آچکا تھا۔ ہمت ہارنے والا تھا کہ کیا دیکھتے ہیں ایک چیونٹی ہے جو درخت پر چڑھنے کی جدوجہد کر رہی ہے، لیکن درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے اور نیچے گر جاتی ہے۔ تھوڑی دیر آرام کے بعد دوبارہ ہمت جٹاتی ہے، پھر سعی کرتی ہے اور چڑھتے چڑھتے گر جاتی ہے۔ یوں مسلسل گرتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ بالآخر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
امیر تیمور کو اس منظر سے بہت ہمت ملی۔ اک نیا ولولہ، جذبہ اور جوش ملا۔ وہ فوراً ایک نئے اور تازہ جذبے سے اٹھا اور اپنے دشمنوں اور مخالفین پر ٹوٹ پڑا۔ یہاں تک باغیوں کا صفایا کردیا، اس کے بعد سے اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ہر کام مستقل مزاجی سے کرتا تھا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس میدان میں بھی قدم رکھتا کامیابی ہی ملتی تھی۔ یوں امیر تیمور لنگ فتح پر فتح پاتا چلاگیا۔ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہا۔ ان واقعات سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ کسی بھی کام کو محنت، توجہ اور مستقل مزاجی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ عمل مقبول ہوتا ہے جو مسلسل، مداومت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کیا جائے۔ ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کام بھی کریں وہ ہمیشہ کریں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ تھوڑا سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ شمار ہوتا ہے۔
اگر ہم کائنات پر گہرا غور و فکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز مستقل مزاجی سے ہی چل رہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو کام بھی کریں وہ اخلاص نیت کے ساتھ محنت اور مستقل مزاجی کریں۔ کامیابی کے چار بڑے رازوں میں سے ایک اہم ترین راز ”مستقل مزاجی” ہے۔