صحابہ کرام کے طبعی ذوق اور میلان

دوسری قسط:
حضرات صحابہ کرام میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا الگ ذوق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حدیث کا ذوق عطا فرمایا تھا۔ احادیث کے سب سے بڑے راوی حضرت ابوہریرہ ہیں، ہزاروں حدیثیں روایت کی ہیں۔ جہاں بھی کوئی بات نکالو، حضرت ابوہریرہ سے کوئی نہ کوئی روایت نظر آجاتی ہے۔ حدیثیں یاد کرنے، حدیثیں سننے اور سنانے کا ذوق تھا۔ آخر عمر میں ان پر اعتراضات بھی ہونے لگ گئے کیونکہ برابر کے لوگوں کو تو ذوق اور محنت کا پتہ ہوتا ہے، لیکن بعد والوں کو سمجھ نہیں آتی کہ بابا کیا کر رہا ہے۔اس وقت بھی لوگوں کو تشویش ہوئی کہ حضرت ابوہریرہ ہر بات پر حدیث سنا دیتے ہیں۔ ایک اور اشکال کی بات یہ تھی کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کو زمانہ تو صرف چار سال کا ملا ہے، جبکہ وہ ہر بات پر حدیث سناتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ جب یمن سے جناب نبی کریم کی خدمت میں آئے تو خیبر کی غنیمت تقسیم ہورہی تھی۔ ساڑھے تین، چار سال سے زیادہ عرصہ انہیں حضورۖ کے ساتھ رہنے کا نہیں ملا۔ اس پر نوجوانوں کو اشکال ہوا کہ آپ اتنی حدیثیں کیسے بیان کرتے ہیں۔

مدینہ منورہ میں مروان بن الحکم امیر تھے۔ حضرت ابوہریرہ ان کے دوست تھے۔ امیر صاحب کبھی شہر سے باہر جاتے تو حضرت ابوہریرہ کو اپنا قائم مقام بنا جاتے تھے اور وہ جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ آخری زمانے میں حضرت ابوہریرہ نے مسجد نبوی میں بہت سے جمعہ پڑھائے ہیں۔ ایک دن جمعہ کے خطبہ میں حضرت ابوہریرہ غصہ میں آ گئے، ہلکا پھلکا غصہ تھا۔ فرمانے لگے کہ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں۔ آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں حدیثیں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ فرمایا اس کی دو وجہیں ہیں: ایک وجہ یہ ہے کہ تمہارے چاچے مامے کوئی ایک نماز میں آتا تھا، کوئی دو نمازوں میں آتا تھا، کوئی تیسرے دن آتا تھا، کوئی جمعہ میں آتا تھا۔ جبکہ میں نے جب سے حضور نبی کریمۖ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تب سے لے کر حضورۖ کے وصال تک آپۖ سے حدیثیں سننے کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ میں چوبیس گھنٹے کا حاضر باش شاگرد تھا۔ میں نبی کریمۖ کو گھر کے دروازے پر چھوڑ کر آتا تھا، اور مجھے پتہ ہوتا تھا کہ آپ کب تشریف لائیں گے، چنانچہ میں آپۖ کو گھر کے دروازے سے وصول کرتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ راستے میں آپۖ کوئی بات فرما دیں اور میں سن نہ سکوں۔ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرصہ تھوڑا ملا ہے لیکن میں نے اس میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ میں حضور نبی کریم کے ساتھ جڑا رہتا تھا اور مسلسل شب و روز یہی کام تھا کہ حضور کی باتیں سنوں اور یاد کروں۔ جبکہ باقی حضرات میں سے کوئی کاروبار کرتا تھا اور کوئی کھیتی باڑی کرتا تھا۔ میں نے تو کوئی اور کام کیا ہی نہیں، میرا ایک ہی شوق تھا کہ حضورۖ کی باتیں سنوں، یاد کروں اور لوگوں کو سناؤں۔

حضرت ابوہریرہ نے حدیثیں زیادہ بیان کرنے کی دوسری وجہ یہ ذکر فرمائی کہ میرے پیچھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا کوئی کاروبار، روزگار نہیں تھا۔ اصحابِ صفہ کے ساتھ پڑا رہتا تھا۔ لوگ آکر کھجوریں رکھ جاتے تھے، کوئی پانی اور کوئی ستو رکھ جاتا، ہم وہ کھا کر گزارہ کر لیتے۔ کبھی کھانے کو کچھ مل جاتا اور کبھی کچھ نہ ملتا۔ دو دو دن فاقہ ہوتا تھا اور کبھی میں بے ہوش ہو کر گر پڑتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ ابوہریرہ کو مِرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ لوگ ٹونے ٹوٹکے کے طور پر میری گردن پر پاؤں رکھتے تھے۔ حالانکہ اللہ کی قسم مجھے کوئی مِرگی وغیرہ نہیں ہوتی تھی، صرف بھوک ہوتی تھی جس کی شدت کی وجہ سے گر پڑتا تھا۔ اس کیفیت میں بھی میں نے صفہ نہیں چھوڑا، مسجد نہیں چھوڑی، اور حضورۖ کی مجلس نہیں چھوڑی۔

فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں بھوک کی شدت سے بے چین تھا، دو تین دن سے فاقہ چل رہا تھا، اور یہ بھی طے کر رکھا تھا کہ کسی سے مانگنا نہیں ہے، کسی سے اپنا حال بیان نہیں کرنا۔ یہ بھی عزیمت کا ایک بڑا مقام ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق میرے سامنے سے گزرے تو میں نے سلام کہہ کر کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ جب چالیس سال کے بعد یہ روایت بیان کر رہے ہیں تو کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب مجھے معلوم تھا، میں نے حضرت ابوبکر سے اس لیے پوچھا تھا کہ شاید گفتگو میں انہیں اندازہ ہو جائے اور کچھ کھلا دیں۔ انہوں نے آیت کا مطلب بتایا اور چلے گئے۔ پھر فرماتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد حضرت عمر وہاں سے گزرے، میں نے انہیں بھی سلام کہا اور ایک آیت کا مطلب پوچھا۔ فرماتے ہیں کہ آیت کا مطلب مجھے معلوم تھا، لیکن میں ساتھ ساتھ چل پڑا کہ گھر کے دروازے تک بات پوچھتے پوچھتے جاؤں گا، گھر کے دروازے پر آدمی اخلاقاً پوچھ لیتا ہے کہ کچھ کھا پی جاؤ۔ لیکن دروازے پر پہنچے تو حضرت عمر نے نے سلام کہا اور دروازہ بند کر کے گھر چلے گئے۔

فرماتے ہیں میں پھر پریشان کہ یا اللہ یہ کیا ہوا۔ یہ بات بھی نہیں بنی۔ تھوڑی دیر کے بعد جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا۔ میں نے سلام کہا۔ حضورۖ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا ابوہریرہ! بھوک لگی ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جی بھوک لگی ہے۔ آپۖ نے فرمایا میرے ساتھ چلو۔ میں آپ کے ساتھ چل پڑا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ ازواجِ مطہرات کے نو حجرے تھے۔ آپۖ نے ایک حجرے سے پوچھا کہ کچھ کھانے پینے کو ہے؟ جواب ملا کچھ نہیں ہے۔ دوسرے اور تیسرے حجرے سے بھی یہی جواب ملا۔ چوتھے یا پانچویں حجرے سے ایک دودھ کا پیالا ملا۔ (جاری ہے)