”ایک آرزو“ کے عنوان سے علامہ اقبال کی ایک نظم ہے، اس کی صحیح وجدانی کیفیت کا ادراک تو وہ لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے پہاڑی علاقوں میں بہنے والے دریاﺅں اور ندی نالوں کا منظر دیکھا ہو کہ جہاں جھاڑیاں ہوتی ہیں اور دریا میں بہنے والے پانی کے دونوں اطراف سبزہ بچھاہوتاہے اور ماحول پُرسکون ہوتاہے۔ چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور آبریزوں کی نغمگی سے معمور آوازیں آرہی ہوتی ہیں، چڑیاں چہچہا رہی ہوتی ہیںاور ہرسو سکوت طاری ہوتاہے۔ ایسے میں آدمی اپنے ہاتھ کا سرہانہ بنائے سبزے پہ لیٹا ہو اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہورہا ہو۔
ہم نے اسکول کے زمانے میں یہ نظم پڑھی تھی اور اس کے مناظر بھی دیکھے تھے، اس لیے یہ کبھی ذہن سے محو نہ ہوسکی۔ آج جبکہ شوروشرر، ہاﺅ ہُو، چیخ پکار، ٹریفک اور کارخانوں کا شور اور ماحول کی آلودگی قدرتی فضا کو زہرآلود کررہی ہے تو چشمِ تصور میں اس نظم کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں
دُنیا کی محفلوں سے، اُکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لُطف انجمن کا، جب دل ہی بُجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامُشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اِک، چھوٹا سا جھونپڑا ہو
مفہوم :”اے پروردگار!دنیا کی محفلوں سے طبیعت اکتا گئی ہے، جب دل پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو تومجلسی زندگی میں کیا لطف آئے گا۔ اس لیے شورش سے طبیعت متنفر ہورہی ہے اور دل ایسے سکوت کا متلاشی ہے کہ جس پر خطاب اور تکلُّم بھی فدا ہونا پسند کرے۔ خاموشی میری تمنا ہے، کاش کہ پہاڑ کے دامن میں میرے رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو اور چاروں طرف سکوت طاری ہو“۔
آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے، کانٹا نکل گیا ہو
لذّت سُرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغَر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
مفہوم: ”ایسا ماحول چاہیے کہ دنیا کی ہر فکر سے آزاد ہوکر تنہائی میں وقت گزاروں اور دل میں کسی چیز کا غم نہ رہے۔ جب چڑیاں چہچہارہی ہوں توایسے پُرسکون ماحول میں نغمگی کاسرور محسوس ہو اور پہاڑی چشموں سے پانی بہنے کی آواز ایسی لگے جیسے کوئی دلکش اور سَمع نواز ساز بج رہا ہے۔ اتنا سکوت ہو کہ پھول کی کلی کے چٹکنے کی آواز بھی محسوس ہو اور قدرتی پانی کا جام میرے لیے جامِ جَم سے زیادہ قیمتی ہو“۔ افسانوی روایات کے مطابق جامِ جم فارس کے بادشاہ جمشید کی طرف منسوب ہے، اُس پر ایسے نقوش بنے ہوئے تھے جن سے مستقبل کا حال معلوم کیا جاسکتا تھا۔
ہو ہاتھ کا سَرھانا، سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جَلوت، خَلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو، صورت سے میری بُلبل
ننھّے سے دل میں اُس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
مفہوم:” ہاتھ کا سرہانا بناکر قدرتی بچھے ہوئے سبزے پہ لیٹ جاﺅں اور ایسی تنہائی ہو کہ جس کے سامنے پُر رونق محفلیں بھی شرما جائیں۔ پہاڑی بلبل میری صورت سے اس قدر مانوس ہوجائے کہ وہ مجھ سے چھیڑ چھاڑ اور معصومانہ شرارتیں کرے اور اُسے مجھ سے ذرا بھی خطرہ محسوس نہ ہو“۔
صف باندھے دونوں جانب، بُوٹے ہرے ہرے ہوں
ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو
آغوش میں زمیں کی، سویا ہُوا ہو سبزہ
پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
مفہوم: ”ندی کے دونوں جانب ہرے بھرے درختوں کی قطاریں ہوں اور جب ندی کے صاف پانی میں اُن کا عکس نظر آئے تو لگے کہ یہ پانی اُن کی تصویر لے رہا ہے۔ ندی کے دونوں جانب پہاڑوں کا نظارہ انتہائی دلفریب ہو، ایسا لگے کہ ندی کا پانی اچھل اچھل کر ان مناظر کودیکھ رہا ہے۔ پہاڑ کی آغوش میں پُرسکون سبزہ ایسے بچھا ہو کہ جیسے سورہا ہے اور بل کھاتی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان سے ندی کاہر آلودگی سے پاک شفاف پانی چمک رہا ہے“۔
پانی کو چھُو رہی ہو، جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی
جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلہن کو
سُرخی لیے سنہری ہر پھُول کی قَبا ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید اُن کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو
مفہوم:” ندی کے دونوں طرف درختوں کی ٹہنیاں اس طرح جھک کر پانی کو چھورہی ہوں جیسے کوئی حسین آئینہ دیکھتا ہے۔ سورج غروب ہونے کا منظر ایسا لگے کہ جیسے شام کی دُلہن کو مہندی لگائی گئی ہے اور اُس کی سرخی ہرپھول پر منعکس ہورہی ہے۔ جنگل کے مسافر جب چلتے چلتے تھک کر آرام کی تلاش میں ہوں تو میرا ٹوٹا ہوا دیا اُن کے لیے اُمید کی کرن ہو“۔
بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مُو¿َذِّن
مَیں اُس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا اِحساں
روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو
مفہوم:” جب آسمان پہ ہرسُو بادلوں کی اندھیریاں چھائی ہوئی ہوںاور بجلی چمکے تو اُس کی روشنی میں مسافروں کو میری جھونپڑی نظر آئے۔ رات کے پچھلے پہر جب کوئل کُوکُو کرے تو لگے کہ وہ صبح کی اذان دیتے ہوئے میری ہمنوا بن رہی ہے۔ کسی عبادت گاہ کا، جہاں سے عبادت کے لیے بلایا جاتا ہے، میرے کانوں پر کوئی احسان نہ ہو، بلکہ میری جھونپڑی کا روشن دان نما سوراخ ہی مجھے صبح کا پتا دے“۔
پھُولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو
اس خامُشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہر دردمند دل کو، رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انھیں جگا دے
مفہوم: ”جب رات کودرختوں کے پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرات نمودار ہوں تو لگے کہ وہ پھولوں کو وضو کرارہی ہے جبکہ تنہائی میں میرا رونا میرا وضو ہواور میری فریاد میری دعا ہو۔ اس خاموش ماحول میں، مَیں اتنی اونچی آواز سے فریادیں کروں کہ آسمان کے تارے میری آواز سن کر متوجہ ہوجائیں۔ مجھے ایسی حضوری کی کیفیت نصیب ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میرارونا ہردرد مند دل کو رُلادے اور جو ذاتِ باری تعالیٰ سے غافل ہوکر مدہوش پڑے ہیں، انھیں بھی جگادے“۔ شاید مرزاغالب بھی دنیا کی محفلوں، مکرو وفریب اور نمود ونمائش سے اکتا گئے تھے اور پھر ایسی ہی خَلوت کی تمنا کرتے ہوئے انھوں نے اپنے جذبات کو منظوم کیا ہوگا:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سُخَن کوئی نہ ہو اور ہمزَباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اِک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
مفہوم: غالب! اب ایسی جگہ چل کر ٹھکانا بناﺅ، جہاں نہ کوئی رازدار ہو اور نہ کوئی آپ کی زبان کو سمجھنے والا ہو۔ بس ایک ایسا گھر چاہیے کہ جس میں سائبان تو ہو، لیکن کوئی درودیوار ہو، نہ کوئی ہمسایہ اور نہ کوئی پاسبان ہو۔ اگر خدانخواستہ بیمار پڑ جاﺅں تو کوئی تیمار دار نہ ہواور مرجاﺅں تو کوئی نوحہ کرنے والا نہ ہو“۔ الغرض اپنے ہر دکھ درد کو خود ہی بھگتوں اور ہرغم کو خود ہی سمیٹوں، کسی کے رحم کا آسرا نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غالب کی اس فکر کی تائید کر رہے ہیں، آپ کو اُن کی کیفیت سے آگاہ کر رہے ہیں۔
