مکمل انصاف!

صوبہ پنجاب میں گزشتہ ایک سے ڈیڑھ ماہ کے دوران جرائم کی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ جرائم کے ساتھ ساتھ مجرم بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) بڑی تندہی، جانفشانی اور عزم کے ساتھ معاشرے کے رِستے ناسوروں کا خاتمہ کر کے کرائم فری پنجاب بنانے کی عملی کوششوں میں مصروف ہے۔

کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے قیام کو ابھی دو ماہ پورے بھی نہیں ہوئے لیکن اس نے اپنی دھاک بٹھا کر جرائم پیشہ عناصر پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ وہ جو قانون کو رکھیل اور عدالتوں کو گھر کی باندی سمجھتے تھے، قرآن مجید پر حلف اٹھا کر جرائم سے توبہ کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ویگو ڈالے میں دہشت پھیلاتے گینگسٹر کی طرح آٹھ دس مسلح باڈی گارڈز کے گھیرے میں گھومنے والے ٹک ٹاکرز اپنے علاوہ اپنے باپ کی توبہ کی ذمہ داری لیتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ منشیات فروش، ڈکیت گینگز، راہزن، نقب زن، شوٹر اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث کریمنلز گیدڑوں کی طرح چھپتے پھر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سی سی ڈی نے عام شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔ سی سی ڈی کی کارروائیاں ان مظلوموں کا کتھارسس کر رہی ہیں جن کے مجرم ان کے ساتھ ڈکیتی، لوٹ مار اور دورانِ ڈکیتی خواتین کے ساتھ ریپ کی وارداتیں کرنے کے باوجود بھی سرِعام دندناتے پھرتے تھے۔ انہیں عدالتیں سزا دے رہی تھیں نہ پولیس ان پر پکا ہاتھ ڈالنے میں کامیاب ہو پا رہی تھی کہ ان مجرموں کی دہشت اور اپنی موت کے خوف سے اکثر مدعی اور گواہان ان کے خلاف کیس کی پیروی کرنے اور گواہی دینے سے ڈرتے تھے۔ یہ گرفتار ہونے کے بعد بھی چند ہفتوں یا مہینوں بعد عدم ثبوت کی بنا پر بری ہو جاتے تھے۔

ایک طبقہ سی سی ڈی کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مقابلوں میں مارے جانے والے جرائم پیشہ عناصر ان کی موت کو ماور ائے عدالت قتل قرار دے رہا ہے۔ سی سی ڈی کو ملنے والے اختیارات پر بھی بعض لوگوں کو اعتراض ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ مجرموں کے ساتھ ساتھ کہیں بے گناہ شہری بھی موت کے گھاٹ اترنا شروع نہ ہوجائیں۔ ماضی میں سی ٹی ڈی کے حوالے سے اس طرح کی شکایات عام تھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بااثر لوگ سی سی ڈی کے ذریعے بھی اپنے مخالفین کو مروانا شروع کر دیں۔ ان کی تشویش اپنی جگہ وزن رکھتی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ جرائم اور مجرموں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سی سی ڈی میں فرائض سے غفلت برتنے پر احتساب کا عمل بھی شروع ہے۔ کرپشن کی شکایات پر سی سی ڈی کے چار افسران انسپکٹر ظفر گرواہ، سب انسپکٹر مسعود احمد ملتان ریجن، سب انسپکٹر دیس محمد لاہور ریجن اور ہیڈ کانسٹیبل شہزاد محمود سرگودھا ریجن کو کرپشن کے الزام میں معطل کر کے انکوائری کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک سی سی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے مجرموں میں سے کسی کے ورثاء نے مقابلے کو جعلی قرار نہیں دیا اور نہ ہی کسی نے جوڈیشل انکوائری کی درخواست دی ہے۔

سی سی ڈی کے ہاتھوں مارے جانے والے عادی مجرم تھے جو دہشت اور خوف کی علامت بنے ہوئے تھے۔ بعض حضرات نے سی سی ڈی کے قیام کو پنجاب پولیس اور عدالتی نظام کی ناکامی قرار دیا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ پولیس مجرموں کو پکڑنے کے باوجود سزا نہیں دلا پاتی جبکہ عدالتیں مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اگر ہم تھوڑا سا بھی غور کریں تو پولیس یا عدلیہ سے زیادہ عوام کا قصور ہی نظر آئے گا۔ پولیس نے اپنی کارروائی مدعی کے موقف کو سامنے رکھ کر کرنا ہوتی ہے۔ واردات کے فوراً بعد مدعی پورے جوش اور ولولے کے ساتھ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتا ہے۔ اپنی مرضی کے گواہ لکھواتا ہے لیکن جب اسے ملزمان کی طرف سے یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ کیس واپس لے لو ورنہ تمہارے گھر کی عورتوں کو اٹھا لیں گے یا تمہیں قتل کر دیا جائے گا تو اکثر مدعی مقدمہ کمزور پڑ جاتے ہیں۔ گواہان بھی اپنی جان، مال یا عزت کے خوف سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں پولیس بھی بے بس ہوجاتی ہے اور عدالت بھی ملزمان کو بری کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ عدالت جذبات پر نہیں بلکہ شواہد کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ اب تصویر کا یہ بھیانک رخ بھی دیکھیے کہ ڈکیت گینگ کسی گھر میں داخل ہو کر قیمتی سامان اور نقدی لوٹتا ہے۔ مزاحمت پر اہلِ خانہ میں سے کسی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ بعض کو شدید زخمی کیا جاتا ہے۔ مزاحمت نہ بھی کی جائے تو بعض درندے شوق میں ہی کسی فرد کو مار دیتے ہیں۔ گھر میں موجود خواتین کی عصمت دری اسلحے کے زور پر ان کے مردوں کے سامنے کی جاتی ہے۔ اس وقت کیا حالت ہوتی ہو گی اہلِ خانہ کی؟ ایف آئی آر درج کراتے وقت اکثر لوگ خواتین کے ریپ کا ذکر بدنامی کے خوف سے نہیں کرتے۔ کون خواتین کو عدالتوں میں گھسیٹتا پھرے جہاں زیادتی کرنے والے غنڈے سزا کے خوف سے بے پروا ہو کر اکڑتے ہوئے مقدمے کا سامنا کر رہے ہوں۔ آپ گھر کے اس بیٹے کو تصور میں لائیں جو منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہوا۔ والدین نے اس سے دنیا بھر کی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں مگر وہ جوان ہو کر منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ گیا اور پھر اس کے بے یار ومددگار غلاظت میں لتھڑی ہوئی لاش کسی ریلوے اسٹیشن، لاری اڈے، کسی سڑک کے کنارے یا کسی کھیت سے ملی۔ موت کے سوداگر منشیات فروشوں نے پوری ایک نسل کو تباہ کر دیا ہے۔ نوجوانی میں سہاگنیں بیوہ اور معصوم بچے یتیم ہو رہے ہیں۔

ایک اور کھیپ ٹک ٹاک سے کمائی کرنے والوں کی مارکیٹ میں آ گئی ہے جو سرِعام اسلحہ لہرانے والے گارڈز کے جلو میں دہشت پھیلاتے، ویڈیوز بناتے اور ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کر کے نوجوانوں میں احساسِ کمتری پیدا کر کے انہیں بے راہ روی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ یہ بگاڑ ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ اس ناسور نے آہستہ آہستہ اپنی جڑیں پکڑ کر پورے معاشرے کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے۔ پنجاب کے بعض علاقے تو علاقہ غیر بنتے جا رہے تھے جہاں غنڈہ عناصر نے اپنی اپنی سلطنت قائم کر رکھی تھی۔ علاج بیماری کا ہوتا ہے۔ ناسور کا علاج نہیں ہوتا۔ اسے جسم سے آپریشن کر کے نکالنا ہی پڑتا ہے۔ اگر کینسر زدہ حصے کو جسم سے نہ نکالا جائے تو وہ اس جسم کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ اس سے پہلے کہ پورا پنجاب معاشرے کے ناسوروں کی لپیٹ میں آ کر تباہ و برباد ہو جاتا اس کینسر زدہ پھوڑے کے آپریشن کا فیصلہ کر کے پنجاب کو بچا لیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اب جرائم پیشہ افراد ہمیشہ کے لیے تائب ہوں گے یا دنیا میں نہیں ہوں گے۔ بہت جلد پنجاب میں چوری، ڈکیتی، اسلحہ کلچر اور منشیات فروشی کا خاتمہ ہوگا۔ گلیوں میں کھیلتے بچے محفوظ ہوں گے۔ کوئی کسی کے مکان اور پلاٹ پر ناجائز قبضہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔ ان شاء اللہ بہت جلد پنجاب امن کا گہوارہ ہوگا۔ سی سی ڈی کے ذریعے ادھورا نہیں مکمل انصاف فراہم ہوگا۔ ویل ڈن سہیل ظفر چٹھہ! پنجاب کو آپ پر فخر ہے۔