نٹ چرانے والی قوم

روسی مصنف انتون چیخوف کے عالمی شہرت یافتہ ناول کے عربی ترجمہ میں ایک کہانی پڑھی۔ کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ روس کی ایک دیہی بستی میں ایک شخص ریلوے پٹڑی سے صامولے (نٹ) کھول رہا تھا، جس پر اسے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ تحقیق پر اس نے بتایا کہ وہ ایک غریب مچھیرا ہے اور مچھلی کے جال باندھنے کے لیے بھاری نٹ استعمال کرتا ہے، کیونکہ اس کے پاس نئے خریدنے کے پیسے نہیں۔ مزید تحقیقات پر انکشاف ہوا کہ پوری بستی، بلکہ اردگرد کی بستیوں میں بھی لوگ یہی کر رہے ہیں۔ نٹ چوری کرکے کوئی اسے فروخت کرتا ہے، کوئی تالے بناتا ہے اور کوئی شکار کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دلیل سب کے پاس ایک ہی ہے: غربت، بے بسی اور معمول بن چکی عادت۔ تفتیشی افسرنے حیرت بھرے انداز میں کہا: پاگل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر سب لوگ یہی کر رہے ہیں تو اس طرح تو ٹرین یقینی طور پر الٹ جائے گی۔ ملزم کہنے لگا: نہیں سر، ایسا نہیں ہوگا، کیونکہ ہم متبادل طور پر ایک نٹ کو ڈھیلا کرتے ہیں اور دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ بوجھ تقسیم ہو جائے۔ یہ ہم نے فزکس کے اسباق میں سیکھا تھا، جب ہم چھوٹے تھے۔

محقق نے پوچھا کہ اگر تنخواہیں بڑھا دی جائیں تو کیا لوگ باز آجائیں گے؟ جواب ملا: شاید نہیں، کیونکہ یہ ایک ذہنیت بن چکی ہے۔ اگر واقعی تبدیلی چاہتے ہو تو نئی نسل کو بچپن سے شعور دینا ہوگا۔ پھر کہانی کا اختتام ایک خوفناک حادثے پر ہوتا ہے، جب ریلوے کی پٹڑی پر کھڑا ایک غریب بچہ نٹ کھول کر کھیل رہا ہوتا ہے، ہاتھ میں دو نٹ، چہرے پر مسکراہٹ، آنکھوں میں معصومیت۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ کیا کر رہا ہے، وہ بس وہی کر رہا ہے جو اس نے اپنے گاؤں کے بڑوں سے سیکھا ہے۔وہ مزید دو ساتھ والے نٹ کھول دیتا ہے، جس سے ٹرین الٹ جاتی ہے۔ وہ بچہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا کھیل کتنی بڑی تباہی لا سکتا ہے کیونکہ وہ نہ تو اسکول گیا تھا اور نہ ہی اس نے فزکس کی کلاسیں اٹینڈ کی تھیں۔یہ کہانی روس کی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ سچی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ فرضی ہو۔ کہانی نے مگر جو آئینہ دکھایا ہے اس میں ہمارے ہی معاشرے کا چونکا دینے والا عکس نظر آتا ہے۔ وہ مچھیرا جو پٹڑی سے نٹ نکالتا ہے، وہی ہے جو پاکستان میں کرپشن کا پہلا دفاع پیش کرتے ہوئے بزبان حال کہتا ہے: میں مجبور ہوں، میں غریب ہوں، میرے پاس دوسرا راستہ نہیں! یہی جواز یہاں ہر سطح پر دیا جاتا ہے۔ تھانے سے لے کر اسپتال تک، عدالت سے لے کر اسکول، کالج، یونیورسٹی، مدرسہ تک، اسمبلی سے لے کر میڈیا تک۔ سب کے ہاتھ میں ایک نٹ ہے، ایک پیچ ہے، ایک صامولہ ہے اور سب اسے نظام سے چرا رہے ہیں۔

یہ عذر پیش کرنا ہم سب کا اجتماعی رویہ بن چکا ہے کہ ہم تو صرف ایک نٹ نکالتے ہیں، باقی چھوڑ دیتے ہیں، تاکہ نظام گرے نہیں! ہم مگر یہ نہیں جانتے کہ آخری نٹ کون سا ہوگا، جس کے نکلتے ہی سب کچھ دھڑام سے گر جائے گا؟ ہماری عدالتیں انصاف کے نٹ کھول رہی ہیں، ہماری سیاسی جماعتیں ریاست کے پیچ ڈھیلے کر رہی ہیں، ہمارا مذہبی طبقہ وحدت کے کیل نکال رہا ہے، ہمارا میڈیا سچائی کے بولٹ ڈھیلے کر رہا ہے اور ہمارا تعلیمی نظام پوری قوم کی ریل کو بغیر بریک کے اندھیرے کی طرف دھکیل رہا ہے۔یہ وہ ملک ہے جہاں تالے بھی چوری کے نٹوں سے بنتے ہیں، جہاں حکمران کو اس کی خبر بھی ہو تو پروا نہیں ہوتی اور جہاں کسی دن ریل الٹ جائے تو سب چونک کر پوچھتے ہیں: یہ کیا ہو گیا؟ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تنخواہیں بڑھا دینا کافی نہیں۔ یہ عادت، یہ سوچ، یہ معمول اگر نسلوں میں منتقل ہو چکا ہے تو اب محض معاشی پالیسی سے کچھ نہیں بدلے گا۔ ہمیں اسکول کے نصاب میں صرف فزکس کے اصول نہیں، اخلاقی اصول بھی سکھانے ہوں گے۔ بچوں کو صرف طبیعیات کے قوانین نہیں، اسلام اور ضمیر کے قوانین بھی سمجھانے ہوں گے۔ تب جا کر شاید کوئی بچہ ریل کی پٹڑی پر نٹ ہاتھ میں لیے کھڑا نہ ہو۔

آج اگر ہمارا بچہ نٹ چرا رہا ہے، تو یہ جرم اس کا نہیں، یہ جرم اس نظام کا ہے جو اسے غربت، جہالت اور بے حسی کے شکنجے میں جکڑ کر یہ سکھاتا ہے کہ سب یہی کرتے ہیں! مسئلہ یہ نہیں کہ نٹ چوری ہو رہے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام اب جرم نہیں، ہنر سمجھا جاتا ہے۔کبھی سوچا، ہماری قوم کی ریل کب تک چلے گی؟ کتنے نٹ اور نکلیں گے؟ کتنے پیچ مزید ڈھیلے ہوں گے؟ اور وہ بچہ جو کل کسی دفتر، کسی وزارت، یا کسی عدالت کی کرسی پر بیٹھے گا۔ کیا وہ بھی وہی کچھ نہیں کرے گا جو اس کے بڑوں نے کیا؟ جواب اگر ”ہاں” ہے، تو پھر ہم سب تیار رہیں، کیونکہ ریل کا الٹنا اب صرف وقت کا سوال ہے کہ ہم بھی آخر نٹ چرانے والی قوم بن چکے ہیں۔ اگر اس عادت کو نہ بدلا، تو تاریخ کے ملبے تلے ہماری پہچان صرف یہی رہ جائے گی: وہ قوم جو ہر پیچ خود کھولتی رہی… اور آخرکار خود ہی تباہ ہو گئی۔

جی ہاں! جب جہالت، غربت اور لاپروائی مل جائے تو پوری قوم پٹری سے اتر سکتی ہے۔ خوف خدا، قانون کی رٹ، تربیت، انصاف اور شعور ہی اصل حل ہے!