5جولائی 2025ء کو ہم نے اپنے سوشل میڈیا پیج ”Al-Munib” پر ”ایسی بلندی، ایسی پستی!”کے عنوان سے یہ پوسٹ اپلوڈ کی:”امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود بینی، خود ستائی اور خود پرستی کا شاہکار ہیں۔ معاشی حُجم اور سپرپاور ہونے کے اعتبار سے دنیا کاسب سے بڑا ملک، رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک امریکا انھیں اپنے قدوقامت سے چھوٹا نظر آتا ہے اور اُن کی خواہش ہے کہ دنیا میں رقبے کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک کینیڈا بھی امریکا کی51ویں ریاست بن جائے۔ یہ اُس کی بلندی کا عالَم ہے اور دوسری طرف اُن کی ذہنی پستی کا عالَم یہ ہے کہ جب ایک جواں عمر شخص زہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نیو یارک سٹی کی میئر شپ کا امیدوار بننے میں کامیاب ہو گیا تو اُس نے ممدانی پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا اور کہا: ”یہ پاگل شخص ہے، کمیونسٹ ہے، اگر نیویارک کے لوگ اسے منتخب کریں گے تو یہ اُن کا پاگل پن ہوگا اور جب وہ پیسے مانگنے وائٹ ہائوس آئے گا تو میں اُسے پیسے نہیں دوںگا”۔ یہ خاندان اصلاً ہندوستان کے صوبہ گجرات سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر ہجرت کر کے یوگنڈا گیا اور وہاں سے امریکا آیا۔ امریکا اپنی آبادی کی ساخت کے اعتبار سے ٹرمپ سمیت تارکینِ وطن کا ملک ہے اور ٹرمپ کو تارکینِ وطن ہی سے بہت نفرت ہے۔ صدیق ضیا نے کہا تھا
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
اس پر ایک صاحب نے لکھا: ”آپ کو ممدانی کی تعریف اور اس کی سائڈ لینے کی کچھ ضرورت نہیں، کیونکہ یہ ہم جنس پرستوں کا نام نہاد وکیل ہے، اس طرح کی بہت سے قباحتیں اس میں پائی جاتی ہیں، یعنی آپ سمجھ لیں کہ یہ نیم ملحد ہے، ہمیں ضرورت نہیں کہ ٹرمپ اور ممدانی کے آپسی پھڈے میں پڑیں”۔ ہم نے انھیں جواب دیا: ”ہمیں ممدانی کی سائیڈ لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نہ ہم اُسے جانتے ہیں، ہم نے اُس کا نام صرف ٹرمپ کی ذہنیت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، اصل مُدّعا سمجھنے کی کوشش کیا کریں، ورنہ کیا آپ کو لندن کے تیسری مرتبہ میئر منتخب ہونے والے صادق خان کے نظریات کا علم ہے، اندھیرے میں تیر چلانے کے بجائے مطالعے میں وسعت پیدا کریں۔
ہمارے نوجوان علماء اور طلبہ درسیات میں علمِ معانی کی کتابیں پڑھتے ہیں، اُن میں بتایا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کو کسی چیز سے تشبیہ دی جائے توتمام وجوہ سے تشبیہ مراد نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص قدرِ مشترک سے تشبیہ دینا مراد ہوتا ہے، جیسے: ”زید شیر ہے”، تو اس سے شَجاعت میں تشبیہ دینا مراد ہوتا ہے، اس کے معنی یہ نہیں کہ زید کے پنجے بھی ہیں اور سامنے کے دانتوں سے شکار بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تشبیہات وتمثیلات قرآنِ کریم میں بھی بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً: جب کفار و مشرکین کے عقائدِ باطلہ کی کمزوری کو مچھر یا مکڑی سے تشبیہ دی تو اُس دور کے منکرین نے اعتراض کیا: ”بھلا!کسی چیز کو مچھر یا مکڑی کے ساتھ تشبیہ دینے کی اللہ کوکیا حاجت ہے”، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک اللہ (کسی چیز کی حقیقت سمجھانے کے لیے) کسی بھی مثال کے بیان کو ترک نہیں فرماتا، خواہ وہ مچھرکی مثال ہو یا اُس سے بھی زیادہ حقیر چیز کی، پس وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ مثال اُن کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تو وہ کہتے ہیں: اس (حقیر) مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے، اللہ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو اس سے ہدایت دیتا ہے، (البقرہ: 26)”۔ یہاں مُشَبَّہ یا مُمَثَّل لَہ (یعنی جس کو تشبیہ دی گئی ہے یا جس کی مثال بیان کی گئی ہے) کی تحقیر مراد نہیں ہے بلکہ ایک حقیر چیز سے تشبیہ یا تمثیل بیان کر کے اُن کے باطل عقائد کا بودا پن ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔
ایک اور قاری نے لکھا: ”ویسے آپ کو ٹرمپ اور ممدانی ہزاروں میل دور نظر آرہے ہیں، مگر پاکستان میں ایک عام پاکستانی پر حکومت اور اداروں کی جانب سے ہونے والا ظلم نظر نہیں آرہا۔ عدالتیں انصاف دینے کے بجائے ایک جنرل کی لونڈی بنی ہوئیں ہیں مگر آپ کو امریکا نظر آرہا ہے”۔ جواباً عرض ہے: ”ہمیں تو بہت کچھ نظر آرہا ہے، لیکن ہر شخص اپنے مطلب کی بات پڑھنا اور سننا چاہتا ہے۔ ہمارے رفیقِ سفر وہ ہیں جو ہر حال میں حق کے طرفدار ہوں، اگر آپ کے کسی ممدوح کی خلافِ شرع کسی بات پر گرفت کریں تو آپ آگ بگولا ہوجاتے ہیں، مگر حق ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے، وہ افراد کی نسبت سے بدلتا نہیں ہے۔ 2017ء سے اعلیٰ عدالتوں میں جو کچھ ہوتا رہا، تب تو آپ کو پسند تھا، اب ناپسند ہوگیا ہے، لہٰذا یہ آپ کا مسئلہ ہے، ہمارے نزدیک جو غلط ہے وہ کل بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے۔ آپ حضرات کا طرزِ عمل اس شعر کا مصداق ہے
پسند و ناپسند کا، کوئی بھی ضابطہ نہیں
کبھی بھلا بھی برا، کبھی بُرا، بُرانہیں
ایک اور صاحب نے لکھا: ”تعجب ہوا کہ ٹرمپ بھی تارکین وطن میں سے ہے”۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت درج ذیل ہے:
”امریکا کو جب کولمبس نے دریافت کیا تو اس کے اصل باشندوں کو ریڈ اِنڈین کا نام دیا گیا، اب انھیں Native Americansیعنی امریکا کے اصل باشندے کہا جاتا ہے۔ AIکی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اب امریکا میں اُن کی آبادی ستانوے لاکھ ہے جبکہ امریکا کی کل آبادی تقریباً پینتیس کروڑ ہے۔ سفید فام لوگوں سمیت باقی سارے تارکینِ وطن ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب سفید فام تارکینِ وطن اپنے آپ کو اصل مالک سمجھتے ہیں اور باقیوں کو تارکینِ وطن قرار دیتے ہیں اور آج کل صدر ٹرمپ تارکینِ وطن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، حالانکہ امریکا کی ریاستیں کیلی فورنیا، نیواڈا، یوٹا، نیو میکسیکو اور ایریزونا پہلے میکسیکو کا حصہ تھیں اور کولوراڈو، وائیومِنگ، ٹیکساس اور اوکلاہاماجزوی طور پر میکسیکو کا حصہ تھیں۔ آج کل امریکا میں میکسیکن تارکینِ وطن کو اسپینش کہا جاتا ہے، کیونکہ میکسیکو ماضی میں اسپین کی کالونی تھا اور میکسیکو کی سرکاری زبان اسپینش ہے۔ اسی طرح کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سفید فام باشندے بھی دراصل تارکینِ وطن ہی ہیں۔ بحرِہند میں واقع ایک جزیرہ ماریشس ہے، اس غیرآباد جزیرے کو یورپی نوآبادیاتی حکمرانوں نے بھارتی تارکینِ وطن کو لاکر آباد کیا تھا۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھیں کہ جب گزشتہ ایک پوسٹ میں صدرٹرمپ کوہم نے ”تارکِ وطن” لکھا تو بعض لوگوں کو اس پر حیرت ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض سفید فام تارکینِ وطن کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں، لیکن اصلاً تو وہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور دیگر یورپی ممالک اور جنوبی افریقہ و زمبابوے وغیرہ سے آئے تھے، کیونکہ امریکا برطانیہ کی نوآبادی تھا۔ 1760ء میں برطانوی استعمار سے آزادی کی تحریک چلی اور جولائی 1776ء میں ٹامس جیفرسن نے آزادی کا اعلان کیا اور دستور کی منظوری کے بعد جارج واشنگٹن امریکا کا پہلا صدر بنا۔ امریکی پرچم میں پچاس ستارے ہیں، 13بڑے ستارے اُن ریاستوں کی نشاندہی کرتے ہیں جنھوں نے برطانیہ کے خلاف جنگِ آزادی میں حصہ لیا اور 37چھوٹے ستارے اُن ریاستوں کی نشاندہی کرتے ہیں جنھوں نے جنگ میں حصہ لیے بغیر امریکا میں شمولیت اختیار کی۔
جب ہم اُن ممالک کے غلبے یا ترقی کے اسباب کے بارے میں لکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مرعوب ہوجائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کے راستے سب کے لیے کھلے ہیں، کسی پر بند نہیں ہیں۔ آپ اپنے اندر عزم، حوصلہ، ولولہ، استقامت اور ترقی کا جذبہ پیدا کریں اور معیار پر اپنے آپ کو دنیا کی قیادت کا اہل بنائیں۔مشہور ضرب المَثَل ہے: ”کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی”۔ صحابۂ کرام و تابعینِ کرام اور مابعد کے ادوار میں مسلمانوں کو اُس وقت کی سپرپاور ز کے مقابلے میں برتری اُن کی شجاعت اور اہلیت کے باعث ملی، کسی نے خیرات میں یہ سوغات عطا نہیں کی۔ آخر انہی مشکلات میں پاکستان نے چاہا تو ایٹم بم بنا لیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور سے لے کر نوازشریف تک تمام حکمرانوں اور بالخصوص ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم و دیگر سائنسدانوں کا حصہ ہے۔ حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ میں پاکستان نے اپنی حربی اہلیت، صلاحیت، عزم، حوصلہ اور شجاعت ثابت کی تو دنیا نے اسے تسلیم کیا۔