خدمت یا ذاتی تشہیر: ایک تم ہو کہ شہرت کی ہوس ہی نہیں جاتی

ہر طرف اس خبر کی بازگشت ہے کہ لاہور کے جناح انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کر کے ‘مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی’ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ صرف ایک نام کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک سوچ کی عکاسی ہے۔ وہ سوچ جو سمجھتی ہے کہ عوامی خدمت بھی ذاتی تشہیر کا ذریعہ ہونی چاہیے۔ سستی شہرت کا چسکا اب معاشرے میں ایک کلچر بن گیا ہے اور لوگ اپنی جیبوں سے پیسے دے اس چسکے کو پورا کرتے ہیں
سستی شہرت حاصل کرنے کوچوں میں چوباروں میں
کھوٹے سکے اچھلے اچھلے پھرتے ہیں بازاروں میں
ہیں کچھ اپسے لوگ جو اپنے پیسوں سے چپھواتے ہیں
اوروں کے کاندھوں پر چڑھ کر اپنی تصویریں اخباروں میں

پاکستان میں تختی کلچر نیا نہیں، مگر وقت کے ساتھ اس کی شدت میں بے حد اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بانی پاکستان کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بھی اپنے نام سے بدل دیا گیا۔ پہلے یہ تھا کہ عوامی منصوبے عوام کے نام پر ہوتے اب تو بے دھڑک ہر جگہ اپنا نام کندہ کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب صوبے کی بجائے خاندانی جاگیر بنتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوامی پیسہ ذاتی تشہیرکے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایک عام شہری یا مخیر فرد کسی منصوبے میں ذاتی رقم لگاتا ہے، تو وہ اس منصوبے کو اپنے یا اپنے والدین کے نام سے منسوب کر سکتا ہے۔ مگر یہ تمام منصوبے تو عوامی ٹیکس سے چل رہے ہیں تو پھر ان پر سیاسی شخصیت کا نام کیوں؟
شہرت کی روشنی میں مسلسل اُچھالئے
پتھر کو آسمان کا تارا کہیں گے لوگ

وزیر اعلیٰ مریم نواز ہمارے ہاں اڈیالہ روڈ راولپنڈی آئیں۔ اڈیالہ روڈ کے فلائی اوور کا افتتاح کیا اسی طرح راولپنڈی کینٹ کے انڈر پاس کی تکمیلی تختی بھی لگائی۔ دونوں مقامات پر خواص شریکِ ہوئے۔ ان مواقع پر انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ترقی ہر ایک کو نظر آنی چاہیے۔ ہم نے جو وعدہ کیا پورا کیا ہم روڈ کو ڈبل کر رہے ہیں تاکہ چکری انٹر چینج تک بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی ہو اور موٹروے پر مزید آسانی سے لوگ سفر کرسکیں۔

آئین کا آرٹیکل 19(A) ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ جان سکے کہ ریاستی وسائل کہاں استعمال ہو رہے ہیں۔ کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سوال کریں کہ ان کے پیسوں سے بننے والے ادارے ایک ہی خاندان کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ کیا ہے؟ عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کو اس رجحان پر نوٹس لینا چاہیے۔ اگر آج اس عمل کو چیلنج نہ کیا گیا تو کل کوئی اور حکومت آئے گی اور وہ انہی منصوبوں پر اپنا نام لگا دے گی۔ یہ ایک ایسا دروازہ کھل رہا ہے جو بند نہ کیا گیا تو جمہوری عمل محض ”برانڈ” بن کر رہ جائے گا۔ عوام کو بھی سوچنا ہوگا۔ ہم تختی دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں، سوشل میڈیا پر تالیاں بجاتے ہیں لیکن معیار، کارکردگی، شفافیت کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں تختی نہیں خدمت چاہیے، نعرہ نہیں نتیجہ چاہیے۔ مریم نواز صاحبہ کو چاہیے کہ خدمت کریں، شہرت خود آ جائے گی۔ پنجاب کو تختیوں سے نہیں تدبیر سے چلائیں ورنہ کل کو نئی آنے والی حکومتیں یہ تختیاں تو اُتار ہی دیں گی
ایک تم ہو کہ شہرت کی ہوس ہی نہیں جاتی
ایک ہم ہیں کہ ہر شور سے اکتائے ہوئے

تاریخ بتاتی ہے کہ تختی کے بغیر بھی لوگ یاد رہتے ہیں۔ موٹروے کا کریڈٹ لینے کے لیے نواز شریف کو کبھی تختی نہیں لگوانا پڑی۔ 1122کا نام آئے تو پرویزالٰہی خودبخود یاد آجاتے ہیں۔ شہباز شریف کی میٹرو، اور نج لائن اور انڈر پاس منصوبے گواہی دیتے ہیں۔ سندھ کے اسپتالوں کا ذکر ہو تو پیپلز پارٹی کی حکومت یاد آتی ہے۔ صاف ستھرا پنجاب پراجیکٹ مریم کے نام کا محتاج نہیں۔ گویا اصل کام بولتا ہے تختی نہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ اب تختی اصل مقصد بن گئی ہے اور خدمت محض ایک ہتھیار۔ ”صوبہ مریم و نواز” میں منصوبہ عوام کا پیسہ عوام کا، لیکن نام صرف باپ بیٹی کا۔ یہ ایک طرح کی خود نمائی اور خودستائی ہے جو سے خدمت کرنے والوں کو زیبا نہیں
لوگوں کو اختیار میں حصہ تو دیجئے
اربابِ اختیار کو اپنا کہیں گے لوگ

بہتر ہو گا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ باقاعدہ اعلان کردیں کہ پنجاب کا نام بدل کر ”صوبہ مریم و نواز” رکھ دیا گیا ہے۔ جب ہر دوسرا منصوبہ یا تو نوازشریف کے نام سے منسوب ہو یا مریم نواز کے تو پھر پنجاب کو اپنے نام سے ہی منسوب کر دیں
جب بھی پاؤ کوئی نیا اعزاز
اپنے آغاز پر نظر رکھو

نوازشریف اور مریم نواز کے نام پہلے ہی کئی پرانے اور نئے پراجیکٹس منسوب کیے جاچکے ہیں۔ مریم نواز حکومت کی طرف سے سال 2025ئ، 26ء کا 5300ارب روپے کا جو بجٹ پیش کیا گیا اُس میں 13 نئے پراجیکٹس کا نام نواز شریف اور مریم نواز کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یعنی اصل ”خدمت” تختیوں میں کی گئی ہے۔ نوازشریف کے نام پر سات اور مریم نواز کے نام پر چھ منصوبے رکھے گئے ہیں۔ گویا تختیاں گنیں تو کارکردگی خودبخود ظاہر ہوجائے۔ نوازشریف کے نام سے 72ارب روپے کے اخراجات سے پہلا سرکاری کینسر اسپتال ‘نوازشریف انسٹیٹیوٹ آف کینسر ٹریٹمنٹ اینڈ ریسرچ’ بنایا جارہا ہے۔ پھر سرگودھا میں ‘نواز شریف انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی’، قصور میں ‘میاں نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی’، پنجاب کے 10ڈویڑنز میں ‘نواز شریف سینٹر آف ایکسی لینس فار ارلی چائلڈ ایجوکیشن’، لاہور میں ‘نواز شریف آئی ٹی سٹی’ اور 109ارب روپے کا ‘نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ’ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ اسی طرح مریم نواز کے نام سے 9ارب کے ‘مریم نواز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی’، 12ارب کے ‘مریم ہیلتھ کلینکس’، 40ارب کا ‘مریم نواز راشن کارڈ پروگرام’، 3ارب کا’مریم نواز دیہی اسپتال’ اور ایک موبائل ایپ ‘مریم نواز دستک’ کا اجرا کیا گیا ہے۔ وجہ سیاسی شعور اور عوامی امنگوں سے نابلد ہونا یا وقت سے پہلے اور اہلیت سے زیادہ ملے کئی مقامات پر یہ دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ ایسی شہرت کا خناس صرف موجودہ حکومتوں کو ہی نہیں سابقہ ادوار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جماعتیں تبدیلی والی ہوں یا نان تبدیلی والی سیاسی جماعتیں یہ احساسات شدت سے سب ہی میں دیکھنے میں آ چکا ہے۔ کبھی انصاف اور صحت کارڈ کی شکل میں، کبھی افتتاحی تختیاں اتارنے اور لگانے کی دوڑ ۔ عوام کے پیسے ان پر خرچ کرنے کی بجائے ذاتی تشہیر۔ عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور سیاسی لیڈروں کے نخرے اور چونچلے ہیں بند ہونے کا نام نہیں لیتے
شوقِ پرواز تو ہے خوب مگر
حدِ پرواز پر نظر رکھو

کیا ہی اچھا ہو سیاسی جماعتیں ذاتی تشہیر کے مقابلوں کی بجائے عوام کی خدمت کا مقابلہ کریں لیکن پارٹی فنڈ سے عوام کو بھی علم ہو کون سی جماعت اقتدار کی ہوس کے بغیر خالصتاً ان سے محبت کا دم بھرتی ہے کوئی تو ہے جسے عوام کا خیال ہے
بھوکی ننگی جنتا کب پیٹ کا ڈھول بجانے گی
بولو کچھ تو بولو کیا رکھا ہے نعروں میں

صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ایک امیدوار کا انتخابی خرچہ تقریباً 10کروڑ کے قریب رہا تھا جبکہ پاکستان بھر میں اوسطاً 5مرلہ کا پلاٹ بمعہ بلڈنگ 15000000میں مل جاتا ہے، دیگر اخراجات فرنیچر کی مد میں 20لاکھ اور شامل کر لیں۔ اس 5مرلہ کی عمارت میں سیاسی جماعتیں سمارٹ کلینک/ آن لائن کلینک بنائیں۔ معمولی فیس رکھیں جس سے ہسپتال کا خرچ اور ڈاکٹرز و پیرا میڈیکس کی تنخواہیں نکل سکیں۔ اس سے بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کا بوجھ بھی کم ہوگا اور عوام کو گھر کی دہلیز پر بنیادی سہولیات بھی مل جائیں گی۔ کیا سیاسی جماعتیں ایسے صحت مند مقابلے کریں گی۔