صحابہ کرام کے طبعی ذوق اور میلان

بعد الحمد والصلوٰة۔ اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں مختلف ذوق ودیعت فرمائے تھے جو آگے چل کر امت میں مستقل طبقات کی بنیاد بنے ہیں۔ آج جو دین کے مختلف بیسیوں شعبے نظر آ رہے ہیں، کوئی کسی شعبے میں کام کر رہا ہے اور کوئی کسی شعبے میں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی تقسیم صحابہ کرام کے دور میں ہو گئی تھی اور صحابہ کرام میں سے مختلف حضرات کے مختلف ذوق آگے چلتے چلتے امت میں پورے طبقات کی بنیاد بنے ہیں۔مثال کے طور پر ہم قرآن مجید پڑھتے اور سنتے ہیں۔ سارے صحابہ کرام ہی پڑھتے تھے لیکن چار پانچ حضرات ایسے قراء ہیں جن کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑے قراء فرمایا۔ جن کے پڑھنے کی تعریف کی، جن سے ذوق سے سنا، اور جن کے قاری ہونے کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذکر فرمایا۔ آج امت میں حافظوں اور قاریوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ ابتدا میں یہ شوق آپ کو چار پانچ بزرگوں میں بہت نمایاں دکھائی دے گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی قراء ت، پڑھنے اور سننے کے حوالے سے جن حضرات کا بطور خاص ذکر کیا ہے ان میں ایک حضرت ابی ابن کعب ہیں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اقراء ھم” فرمایا کہ میرے صحابہ میں سب سے بڑا قاری اْبی ہے۔ امت کے قاریوں کے سردار کا لقب حضور نے ارشاد فرمایا اور صحابہ کرام بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔ بخاری کی روایت ہے کہ حضرت عمر کا اپنی خلافت کے زمانے میں حضرت اْبی سے کسی مسئلے میں اختلاف ہوگیا تو حضرت عمر نے فرمایا دیکھیں! میں آپ کو سب سے بڑا قاری مانتا ہوں لیکن جس مسئلے میں میرا آپ سے اختلاف ہے اس میں آپ کی بات میں نہیں مانتا۔

حضرت ابی ابن کعب کا قرآن مجید پڑھنے، سننے، سنانے کا خاص ذوق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ان کو بلا کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تجھے قرآن سناؤں۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا: کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں تیرا نام لیا ہے اور سورت بھی بتائی ہے کہ سورة البینہ سناؤں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابی بن کعب کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ جو بیس تراویح اہتمام سے جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں اور تراویح میں قرآن مجید سنایا جاتا ہے، اس کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ سب سے پہلا مصلیٰ حضرت عمر کے زمانے میں حضرت عمر کے حکم پر حضرت ابی بن کعب نے سنایا تھا۔جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قاری کے ایک سرٹیفکیٹ حضرت عبد اللہ بن مسعود کو بھی دیا تھا۔ وہ بھی امت کے بڑے قاریوں میں سے تھے۔ جناب رسول اللہ نے فرمایا کہ جو آدمی قرآن مجید کو اس طرح تر و تازہ پڑھنا چاہتا ہے جس طرح کہ وہ نازل ہوا، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد یعنی عبد اللہ بن مسعود کی قرا ت کے مطابق پڑھے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری بھی امت کے بڑے قاری تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ تیری گردن میں تو حضرت داؤد علیہ السلام کا گلہ فٹ ہو گیا ہے۔ ان کی بڑی اچھی لے اور سر تھی اور حضرات انبیائے کرام میں حضرت داؤد کی لے اور سْر بہت اچھی تھی۔ زبور ویسے بھی حمد کی کتاب ہے، نثر کی کتاب نہیں ہے۔ زبور آج بھی گیتوں کی شکل میں ہے۔ ہمارے والے گیت نہیں، اللہ کی حمد کے گیت۔ روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام زبور پڑھتے تھے تو پرندے فضا میں رک جایا کرتے تھے، سمندر کے کنارے پر ہوتے تو مچھلیاں سمندر کی سطح پر آ جایا کرتی تھیں اور پہاڑوں میں پڑھتے تو پہاڑ ساتھ ساتھ پڑھا کرتے تھے۔

ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے فرمایا کہ ابو موسیٰ! رات کو میں اور عائشہ دونوں میاں بیوی تمہارے محلے کسی کام سے گئے تھے، واپس آتے ہوئے جب تمہارے گھر کے سامنے سے گزرے تو تم اندر بیٹھے قرآن مجید پڑھ رہے تھے، گلی میں آواز آ رہی تھی، ہم دونوں وہیں رک گئے اور کافی دیر گلی میں کھڑے کھڑے تمہارا قرآن سنتے رہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ کیسی تلاوت ہو گی جس نے جناب نبی کریم اور ام المومنین حضرت عائشہ کے قدم روک لیے۔ حضرت ابو موسٰیٰ حسرت سے کہنے لگے یا رسول اللہ! مجھے پتہ ہی نہیں چلا، ورنہ میں اور زیادہ لَے اور زیادہ سر میں پڑھتا۔

ان کے علاوہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ بھی بڑے قاری تھے۔ جب یمن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کنٹرول میں آیا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا: ایک حصے کا گورنر حضرت معاذ بن جبل کو بنایا اور دوسرے حصے کا حضرت ابو موسیٰ اشعری کو۔ ابو موسٰی ویسے بھی یمنی تھے۔ یہ دونوں آپس میں ملتے رہتے تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے حضرت معاذ بن جبل نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے پوچھا کہ آپ قرآن مجید کیسے پڑھتے ہیں، کیا ذوق ہے، پڑھنے کی ترتیب کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا میں تو پڑھتا ہی رہتا ہوں۔ کھڑے، بیٹھے، چلتے پھرتے، ہر حال میں پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے پوچھا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ سے تو اس طرح نہیں پڑھا جاتا۔ میرا جب پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے تو اس کے لیے وقت فارغ کرتا ہوں، کاموں سے فارغ ہو کر باوضو ہو کر بیٹھ کر تسلی سے پڑھتا ہوں۔ مجھ سے تو چلتے پھرتے نہیں پڑھا جاتا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری والا ذوق بھی صحیح ہے اور حضرت معاذ بن جبل والا ذوق بھی صحیح ہے۔ ہمارے گوجرانوالہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں مولانا حافظ شفیق الرحمٰن صاحب۔ انہوں نے ہماری جامع مسجد (شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ) میں تقریباً پچیس سال قرآن مجید سنایا ہے، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور پچیس سال میں نے بھی سنایا ہے۔ وہ کاروبار کرتے تھے، کریانہ کی دکان تھی۔ ان کے پاس بچے بھی دکان پر آکر پڑھتے تھے۔ کاروبار بھی کر رہے ہیں اور ساتھ پڑھا بھی رہے ہیں۔ حافظ صاحب مرحوم بازار میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہر وقت پڑھتے ہی رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔ میں نے انہیں جس حالت میں بھی دیکھا وہ قرآن مجید پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ایک دن میں نے ان سے دو سوال کیے۔ ایک سوال ذرا سیریس تھا اور دوسرا دل لگی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا حضرت! آپ ہر وقت قرآن مجید پڑھتے رہتے ہیں، کاروبار بھی کرتے ہیں، پڑھاتے بھی ہیں، اس سب کچھ کے ساتھ روزانہ کتنا پڑھ لیتے ہیں، دیگر مصروفیات کے ساتھ آپ کا تلاوت کا کیا معمول ہے؟ وہ فرمانے لگے اٹھارہ پارے تلاوت تو میرا معمول ہے، کبھی انیس، بیس ہو جاتے ہیں، تئیس تک گیا ہوں۔ یہ تو سیریس سوال تھا۔ دوسرا سوال دل لگی کا میں نے ان سے یہ کیا کہ حضرت! آپ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں، تو کہیں بیت الخلا میں بھی تو نہیں پڑھتے رہتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے، پھر اچانک خیال آتا ہے تو میں زبان پکڑ لیتا ہوں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں، کہاں قرآن مجید پڑھ رہا ہوں!

میں نے عرض کیا کہ حضرات صحابہ کرام میں سے چند حضرات کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے قاری کہا۔ اس زمانے میں چار پانچ بڑے قاری دکھائی دیں گے، اور اب تو پوری دنیا میں قاریوں کی بہار ہے۔ ایک بین الاقوامی امریکی ادارے کا چند سال پہلے ایک سروے ہوا، اس کے مطابق دنیا میں حافظوں کی تعداد تیرہ ملین یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ ہو چکی ہے، جو اب اس سے کہیں زیادہ ہو گئے ہوں گے۔ یہ قرآن مجید پڑھنے، پڑھانے، سننے، سنانے کا ایک ذوق تھا۔ آج پوری دنیا میں کوئی علاقہ اس سے خالی نہیں ہے۔ (جاری ہے)