اختر حسین عرفی
سرور عالمؐ اپنے جانباز مجاہدین کے ہمراہ ۲۲ رمضان کو ثنیتہ الوداع کے مقام سے مدینہ میں داخل ہوئے۔ جنگی قیدیوں کا ایک جم غفیر ساتھ تھا۔ اموال غنیمت کی کثیر مقدار اُونٹوں پر لدی ہوئی تھی۔ ایک سوپچاس اُونٹ، چمڑے کے دستر خوان اور دیگر مصنوعات ، دس گھوڑے، ابوجہل کا قیمتی اُونٹ، کثیر مقدار میں جنگی ہتھیار اور دیگر سازو سامان ساتھ تھا۔
فتح مند لشکر اس شان و شوکت کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوا کہ مدینہ ہی نہیں، اردگرد کے قبائل پر بھی مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ مدینے کے یہودی بھی دبی زبانوں سے اعتراف کرنے لگے کہ واقعی یہی وہ نبی ہے جس کی مدح و تعریف تورات میں مذکور ہے۔ بہت سے وہ لوگ جو حالات کی کروٹ بدلنے کے منتظر تھے، اس فتح کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ بنو خزرج کا موقع پرست سردار عبداللہ بن اُبیَ جسے رسولؐ اللہ کی مدینے آمد کے باعث اپنی بادشاہت کے چھن جانے کا بڑا قلق تھا اور ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا، حالات کا رُخ دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ اپنی سرداری کا بھرم قائم رکھنے کے لئے نئی اسلامی اجتماعیت کا حصہ بننا اس کی مجبوری بن چکا تھا کیونکہ نہ صرف اس کے قبیلے خزرج کے اکثر لوگ بلکہ خود اس کا جوال سال بیٹا عبداللہ بھی سچے دل سے مسلمان ہوچکا تھا۔
٭٭
اُم المومنین سودہؓ بنت زمعہ خاتون مدینہ عفراء کے دو شہید بیٹوں عوف بن حارث اورمعوذ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعزیت کرنے کے بعد جب کاشانہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ سہیل بن عمرو حجرے کے ایک کونے میں اس طرح بیٹھا ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ رسّی سے اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوئیں کہ ان کے سابق شوہر سکران کا بھائی اور ان کے قبیلے کا سردار جس نے اسلام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ،آج قیدی کی حیثیت سے بندھا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر انھیں یارائے ضبط نہ رہا۔ اپنے سابق دیور کو طعن آمیز انداز میں کہنے لگیں:
’’اے ابویزید! تم لوگوں نے اپنے پائوں دوسروں کے اختیار میں دے دیے۔ اگر عزت والے تھے تو عزت کی موت کیوں نہ مر گئے؟‘‘
ام المومنین کی یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہ آئی فوراً فرمایا:
’’اے سودہ! کیا تم اسے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر ابھار رہی ہو۔‘‘
رحمتؐ عالم ہر گھڑی دشمنوں کی بھی ہدایت کے طلب گار تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی مسلمان کی سخت کلامی کے باعث شیطان اللہ کے بندوں کو گمراہی پر قائم کردے۔
’’یارسولؐ اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، جب میں نے ابویزید (سہیل بن عمرو) کو بندھا ہوا دیکھا تو میںخود کو سنبھال نہ سکی۔‘‘
٭٭
جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ اللہ کے رسول نے جب سب سے رائے طلب کی تو سب سے پہلے ابوبکر صدیقؓ نے اپنی رائے دی:
’’یارسولؐ اللہ! ان سے فدیہ لے کر انھیں رہا کر دیا جائے۔ فدیہ سے حاصل شدہ سرمایہ مسلمانوں کے لیے تقویت کاذریعہ بنے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان می
ں سے کئی لوگ مسلمان ہو جائیں اور اس طرح اپنی بہترین صلاحیتوںکے ساتھ امت کی تقویت کا باعث بنیں۔‘‘
’’میری رائے ابوبکر کی رائے سے بالکل مختلف ہے۔‘‘
عمر فاروقؓ نے کہنا شروع کیا:
’’میری تجویز ہے کہ ہر قیدی کو اس کے مسلمان رشتے دار کے حوالے کیا جائے اور ہمیں حکم دیا جائے کہ ہم اپنے رشتے دار کافروں کی گردنیں اڑا دیں۔ یہاں تک کہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ یہ لوگ کفر کے امام ہیں، آج اگر ان کو تہہ تیغ کر دیا جائے تو یہ آئندہ اسلام کی ترقی میں مزاحم نہ ہوسکیں گے۔‘‘
عبداللہ بن رواحہ اور دیگر اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی اپنی تجویزیں دیں۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو سننے کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ قیدیوں سے فدیہ لے کر انھیں چھوڑ دیا جائے۔
اگلی صبح عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں اور ابوبکر صدیق بھی رو رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر عمر فاروقؓ نے عرض کیا:
’’یارسولؐ اللہ! کیا بات ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی رو رہے ہیں۔ اگر رونے کی کوئی وجہ ہوئی تو میں روئوں گا اور اگر کوئی وجہ نہ مل سکی تو بھی آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے میں بھی روئوں گا۔‘‘
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تیرے دوستوں نے فدیہ لینے کا جو مشورہ دیا تھا ،میں اس کے لیے رو رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: ماکان لنبی……عذاب عظیم{ FR 550 } نازل فرمائی ہے:’’کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔‘‘
اللہ کے پہلے نوشتے سے مراد سورہ محمد کی آیت فاذا لقتیم…… اوزاھاکا یہ فرمان تھا:
پس جب ان کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو پہلا کام ان کی گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو، اس کے بعد تمھیں اختیار ہے کہ احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرو حتیٰ کہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے۔‘‘