’’خدا کی قسم! جب تک میں قریش کے مقتولوں کا انتقام نہیں لے لیتا، گھی چکھوں گا نہ غسل کروں گا۔‘‘
قریش کے مورال کو بلند رکھنے کے لیے ابوسفیان نے قسم کھائی۔
بڑے بڑے سرداروں کی ناگہانی موت کے بعد ان نازک حالات میں قریش کی رہنمائی اور سرداری کے قابل ابوسفیان ہی بچے تھے۔ انھوں نے اپنی قسم کو پورا کرنے کے لیے قریشی لشکر کی نئی صف بندی کرنا شروع کر دی۔ابوسفیان اپنے تجارتی کارواں کو بچا کر مکہ پہنچ جانے میں تو کامیاب ہوگئے تھے لیکن ان کے وہم وگمان میں بھی یہ نہ تھا کہ چند بے یارو مدد گار لوگ اس کی قوم کے رئیسوں کو خاک و خون میں نہلا دیں گے۔ ان کی لاشوں کو گہرے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا اور باقی ماندہ سرداروں اور قوم کے سپوتوں کو جنگی قیدی بنا لیا جائے گا۔ اس جنگ میں ان کا اپنا بیٹا حنظلہ، سُسرعتبہ، چچا سُسر شیبہ، برادر نسبتی ولید قتل ہوئے اور ایک بیٹا عمرو مسلمانوں کی قید میں تھا۔
جنگ بدر میں قریش کی رسوا کن شکست پر ہر قریشی رنجیدہ تھا لیکن اس صدمے کو سب سے زیادہ جس نے دل سے لگایا وہ ابولہب تھا۔ اس خبر کو سنے ہوئےاسے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ اس کے گلے میں عدسہ (Milignant Pustule) کی گلٹی نکل آئی، جسے عرب ایک چھوتی مرض اور منحوس بیماری سمجھتے تھے۔ ابولہب کے بیٹوں اور دیگر گھر والوں کو جب اس خطرناک بیماری کا پتا چلا تو انھوں نے اس سے میل جول ترک کر دیا۔ چنانچہ کئی روز تک وہ تنہا اذیت اور درد سے تڑپتا رہا اور بالآخر بے کسی اور کسمپرسی کی موت مر گیا۔ مکہ کے رئیس اعظم کی لا ش تین دن تک بے گوروکفن پڑی رہی۔ یہاں تک کہ اس کی بدبو سے اہل محلّہ بھی پریشان ہوگئے اور انھوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کر دیے:’’تمھیں شرم نہیں آتی کہ تمھارے باپ کی لاش سے بدبو آرہی ہے اور تم اسے دفن بھی نہیں کرتے۔‘‘
بیٹوں نے جواب دیا:’’ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ بیماری ہمیں بھی نہ لگ جائے۔‘‘
یہ مکافاتِ عمل تھا کہ اس کے بیٹے بھی اس کے قریب آنے کے لیے تیار نہ تھے۔
بدنامی کے خوف سے بالآخر اس کے بیٹوں نے حبشی مزدوروں کو اُجرت دے کر ایک گڑھا کھدوایا اور انھوں نے لمبے لمبے بانسوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر گڑھے میں پھینکا اور دور سے ہی مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا:
تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۱ۭ مَآ اَغْنٰى عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا كَسَبَ
۲ۭ
’’ ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ۔ اس کا مال اور
جو کچھ اس نے کمایا، وہ اس کے کسی کام نہ آیا!‘‘
ابولہب کے دست و بازو اس کے بیٹے اور اس کے دو سو اوقیہ سونے کا مالک ہونا، اس کے کسی کام نہ آیا۔ اس نے اللہ کے نبی کو کوہ صفا کی پہلی پکار پر ہاتھ ٹوٹنے کی بددعا دی تھی۔ اللہ رب العزت نے اس کی بددُعا کو اسی پر لاگو کر دیا۔
٭٭
اب چونکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لینے کا فیصلہ ہو چکا تھا، اس لیے قیدیوں کی حیثیت کے مطابق ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک فدیہ طے ہوا اور جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور فدیہ نہ دے سکتے تھے، دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا ہی ان کا فدیہ قرار پایا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں بچوں کی تعلیم اتنی ضروری تھی کہ باوجود اس کے کہ مسلمان بھوک اور افلاس کا شکار تھے، آپ نے روٹی اور دیگر ضروریات پر تعلیم کو ترجیح دی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کافر قیدیوں نے مسلمان بچوں کو اسلام کی تعلیم نہیں دینا تھی، انھوں نے انھیں صرف لکھنا پڑھنا سکھانا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیدیوں کے قیام و طعام کے انتظام کے لیے انھیں صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیا۔ مصعب بن عمیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی ابو عزیز کو ابویُسر انصاری کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ ابو عزیر نے بارہا دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کے پیش نظر وہ اسے تو روٹی کھلاتے اور خودکھجور کے چند دانوں پر گزارا کرتے۔ابوعزیز کو بڑی شرم محسوس ہوتی۔ وہ روٹی گھر والوں کو دینے پر اصرار کرتا لیکن وہ بضد ہوتے کہ روٹی وہی کھائے۔ ابو عزیر کی والدہ نے جب اپنے بیٹے کو رہا کروانا چاہا تو سب سے زیادہ فدیہ چار ہزار درہم اُن سے طلب کیا گیا، کیونکہ وہ کافی خوش حال تھی۔ اس نے فدیہ دے کر بیٹے کو آزاد کرایا۔
٭٭
’’اے اللہ کے رسول ! ہمیں اجازت دیجیے کہ ہماری بہن کے بیٹے عباس بن عبدالمُطلب کے ذمے ہمارا جو زرِفدیہ واجب الادا ہے، ہم اس سے دستبردار ہو جائیں۔‘‘
بنو نجار کے انصار نے عرض کیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا عباس قیدی کی حیثیت سے بنو نجار کی تحویل میں تھے اور بہن سے ان کی مراد عباس بن عبدالمُطلب کی دادی سلمیٰ تھیں جو مدینہ کے بنو نجار خاندان سے تھیں۔
انصار کی بات سن کر اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تم ایک درہم بھی نہ چھوڑو۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مفلوک الحال قیدیوں کو بغیر فدیہ کے چھوڑ دیا تھا لیکن اپنے دولت مند چچا کو یہ رعایت دینے کے لیے تیار نہ تھے،پھر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے چچا کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اپنا فدیہ ادا کریں، اپنے دو بھتیجوں عقیل اور نوفل کا بھی کیونکہ آپ ایک دولت مند شخص ہیں۔‘‘
’’مجھ سے فدیہ کس چیز کا؟ میں تو مسلمان ہوچکا تھا، مجھے تو قریش نے زبردستی اپنے ساتھ نکلنے پر مجبور کیا تھا۔‘‘
انھوں نے دلیل دی تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’جہاں تک آپ کے اسلام کا تعلق ہے، اللہ اسے بہتر جانتا ہے۔ اگر آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کا آپ کو انعام دیں گے لیکن ظاہری طور پر توآپ ہمارے خلاف رہے ہیں، اس لیے ہمیں زر فدیہ ادا کریں۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملے کی قانونی و شرعی حیثیت واضح کردی۔
’’میں اتنی بڑی رقم کہاں سے لائوں؟‘‘ حضرت عباس نے احتجاج کے انداز میں کہا۔
’’وہ مال کہاں گیا جو آپ نے میری چچی اُم الفضلؓ کے ساتھ مل کر زمین میں دفن کیا اور میری چچی سے کہا تھا کہ اگر میں میدان جنگ میں مارا جائوں تو یہ میرے بچوں فضل کو اتنا، عبداللہ کو اتنا اور قثم کو اتنا اتنا دے دینا۔‘‘
یہ وہ بات تھی جو عباسؓ بن عبدالمُطلب نے اپنی بیوی سے تنہائی میں راز داری کے ساتھ کی تھی۔ عباس یہ سن کر پکار اٹھے:
’’آج میں نے جان لیا کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں کیونکہ اس بات کا علم میرے اور میری بیوی کے سوا کسی کو نہ تھا۔‘‘
اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے سب سے زیادہ زر فدیہ وصول کیا۔
٭٭
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سنہری ہار کو دیکھے جا رہے تھے جو مکّے سے زینب بنت محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے شوہر ابوالعاص اور اس کے بھائی عمر کی رہائی کے لیے بطور فدیہ مدینہ بھیجا تھا۔
دیکھتے دیکھتے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر شدید رقت طاری ہوگئی۔ آپ نے اس ہار کو پہچان لیا تھا۔ یہ ہار آپؐ کی مرحوم بیوی خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا جو انھوں نے زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی رخصتی کے موقع پر انھیں پہنایا تھا۔ اس ہار کو دیکھ کر آپؐ کا دل بھر آیا۔مرحوم بیوی اور میلوں دُور بیٹھی بیٹی کی یادوں نے سینے میں تلاطم برپا کر دیا۔ دیر تک اسی حالت میں رہے، پھر صحابہ کرام سے فرمایا:
’’اگر تم مناسب سمجھو تو میری لخت جگر زینب نے جو ہار بطور فدیہ بھیجا ہے، وہ واپس کر دو اور اس کے شوہر اور دیور کو بھی رہا کر دو۔‘‘
تاجدارِ ؐمدینہ کو ریاستی فیصلوں میںاپنی چاہت کو نافذ کرنا گوارا نہ تھا۔ جاں نثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش کی تکمیل سے بڑی سعادت اور کیا ہوسکتی تھی۔ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رہائی کے وقت ابوالعاص سے وعدہ لیا کہ وہ مکہ پہنچتے ہی آپ کی صاحبزادی زینبؓ کو مدینہ روانہ کردے گا۔ اس کے ساتھ آپ نے اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ اورایک انصاری صحابی ابوخیثمہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے باہر بطن یا جج میں رُک جائیں، جب زینب ان کے پاس پہنچیں تو ان کو ہمراہ لے کر مدینے آجائیں۔
ابوالعاص بن ربیع ام المومنین خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہمشیرہ ہالہ بنت خویلد کا بیٹا تھا۔ زوجہ رسولؐ کی خواہش تھی کہ ان کی بڑی بیٹی زینب کی شادی ان کے بھانجے سے ہو جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنی وفا شعار بیوی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے یہ رشتہ منظور کرلیا۔ خدیجہؓ طاہرہ ابوالعاص کو اپنے فرزند کی طرح عزیز رکھتی تھیں۔ ان کے شوہر نامدار شرف نبوت سے سرفراز ہوئے تو خدیجہؓ طاہرہ اور ان کی چاروں صاحبزادیاں آپؐ پر ایمان لے آئیں لیکن ابوالعاص اپنے آبائی دین پر ہی قائم رہے۔ رسولِ اکرمؐ کی دوسری دو صاحبزادیوں رقیہ اور اُم کلثوم کا نکاح آپؐ کے چچا ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے ہوگیا تھا۔ اگرچہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین اسلام کی تبلیغ شروع کی تو مکہ کے رئیس جو اب تک آپؐ کا احترام و تکریم کرتے تھے، آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ انھوں نے باہم مشورہ کیا کہ تم لوگوں نے محمد کی بچیوں کے رشتے لے کر انھیں اس فکر سے آزاد کر دیا اور وہ فارغ ہو کر تمھارے مبعودوں کی بیخ کنی میں لگ گئے ہیں۔ ان کی بیٹیوں کو طلاق دے کر ان کے گھر بٹھا دو۔ جب وہ اپنی جوان بیٹیوں کو اجڑے بیٹھے دیکھیں گے توہمارے معبودوں کے خلاف ان کی مہم بھی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔
چنانچہ ان کا ایک وفد ابولہب کے پاس گیا اور دین آباء کے تحفظ کے لیے اس سے طلاق کی اپیل کی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو کہہ کر رقیہ اور اُمِ کلثوم(رضی اللہ تعالیٰ عنہن) کو طلاق دلوا دی، پھر وہ ابو العاص کے پاس گئے اور آبائی دین کے تحفظ کے لیے مطالبہ کیا کہ وہ زینبؓ بنت محمدؐ کو طلاق دے دے اور اس کے ساتھ انھوں نے پیش کش کی کہ خاندان قریش کی جس دوشیزہ کے رشتے کا تم مطالبہ کرو گے، اس کے ساتھ تمھارا نکاح کروا دیں گے۔ ابوالعاص نے انھیں دوٹوک جواب دیا:
’’نہ میں زینبؓ بنت محمدؐ کو طلاق دوں گا اور نہ ہی کوئی دوسرا رشتہ قبول کروں گا۔‘‘
رسول اکرم اس کے دوٹوک جواب پر اس کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ ابھی مومن او مشرک عورتوں مردوں کے درمیان نکاح کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا۔
ابوالعاص رہا ہو کر مکہ پہنچے اور حسب وعدہ زینب مدینے جانے کی تیاری کرنے لگیں کہ ایک دن قریش کے نئے سردار ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’اے میرے چچا کی بیٹی! اگر تجھے زادِ سفر کے طور پر کسی چیز یا رقم کی ضرورت ہو تو مجھے کہو، میں تمھاری ہرضرورت پوری کروں گی۔‘‘
حضرت زینب جانتی تھیں کہ ہند اپنی پیش کش میں مخلص ہیں لیکن انھوں نے راز افشا کے ڈر سے اس بات کو ٹال دیا۔ جب ان کی تیاری مکمل ہوگئی تو ان کا دیور کنانہ بن ربیع ان کے لیے اُونٹ لے آیا جس پر وہ سوار ہوگئیں۔ کنانہ اپنی کمان اور ترکش گلے میں حمائل کیے انھیں لے کر مکہ سے روانہ ہوا۔
قریش کو جب اس بات کا علم ہوا تو چند جوان ان کے تعاقب میں نکلے۔ ذی طویٰ کے مقام پر انھوں نے انھیں جا لیا۔ ہبار بن اسود بن مطلب نے زینب کے ہودج کے قریب ہو کر نیزہ لہرا لہرا کر انھیں خوفزدہ کرنا شروع کیا۔ زینب امید سے تھیں، خوف و فزع کے باعث ان کی امید ختم ہوگئی۔ زینب کے دیور کنانہ نے جب ہبار اور اس کے ساتھیوں کی یہ حرکت دیکھی تو اس نے اپنا اُونٹ بٹھا دیا اور اپنے ترکش کے تیر نکال کر سامنے رکھ دیے اور انھیں للکار کر کہا: ’’واللہ! جو شخص تم میں سے ہمارے قریب آنے کی جسارت کرے گا میں اپنے تیر اس کے سینے میں پیوست کر دوں گا۔‘‘
یہ دیکھ کر سب پر سکتہ طاری ہوگیا اور وہ پیچھے ہٹ گئے۔اسی اثنا میں ابوسفیان مکہ کے معززین کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا، اس نے کنانہ کو کہا:
’’بس بس! اب تیر نہ چلانا۔ جب تک ہم تمھارے ساتھ گفتگو نہ کرلیں۔‘‘
وہ رک گیا تو ابوسفیان اس کے قریب آیا اور اسے کہنے لگا:
’’تم نے یہ سمجھداری نہیں کی کہ دن کے اجالے میں لوگوں کے سامنے اعلانیہ اس خاتون کو لے کر تم چل پڑے، حالانکہ جس مصیبت میں ہم مبتلا ہیں، اس سے تم بے خبر نہیں ہو۔ ان حالات میں اگر تم محمدؐ کی بیٹی کو لے کر جائو گے تو جو لوگ یہ بات سنیں گے وہ یہی تو کہیں گے کہ اب ہم بالکل عاجز اور ناکارہ ہوگئے ہیں اور یہ بات ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا باعث بنے گی۔ مجھے اپنی زندگی کی قسم! مجھے ان کو یہاں روکنے سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ اسے روکنے سے ہماری آتش انتقام ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ سردست تم انھیں لے کر واپس اپنے گھر چلے جائو۔ چند روز تک یہ ہنگامہ ٹھنڈا پڑجائے گا، لوگ اس کو بھول جائیں گے۔اس وقت کسی رات کو اندھیرے میں انھیں لے کر چلے جانا۔ لوگ یہ دیکھ کر مطمئن ہو جائیں گے کہ ہم نے انھیں لوٹا دیا ہے۔‘‘
جاری ہے