السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
٭شمارہ ۱۱۲۳ سرورق پر ’پھر سے گھڑی اور ہم‘ دیکھ کر ہی پتا چل گیا کہ دانش عارفین حیرت صاحب کی تحریر ہے۔ شمارے کے اندر دیکھا تو تصدیق ہوگئی۔ دستک ’بچوں کے ادب کا افتخار‘ ڈاکٹر افتخار کھوکھر صاحب کی شخصیت سے اچھی طرح آگاہی ہوئی۔ ادب کی دنیا میں ان کی خدمات واقعی بے مثال ہیں۔ ’وہ بچے پریشان رہتے ہیں‘ غلام محی الدین ترک بچوں کے لیے سبق آموز تحریر تھی۔ ’طائوس‘ ظفر شمیم ’مور‘ کے بارے میں خوب معلومات حاصل ہوئی۔ ’کڑا امتحان‘ اشتیاق احمد ایمان داری سے ملازمت کرتے ایک ملازم کی اچھی داستان تھی۔ ’تیقن کا نور‘ ہاشم عارف میکاتی۔ راہ دکھاتی، امید جگاتی تحریر تھی۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ ارحم نیاز مانسہرہ پڑھ کر چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ ’مجھ پر اتارا‘ تین شاعروں نے مل کر نظم لکھی ہے۔ واقعی؟ (حیا احمد۔ کراچی)
ج:جی ہاں واقعی۔ یہ اس نظم کی خصوصیت ہے۔
٭شمارہ ۱۱۴۳ کا سرورق کسی بڑے جنرل سٹور کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ورق گردانی کرتی ہوئی آخری صفحے پر پہنچی۔ ابو الحسن صاحب نے سینٹرل جیل کراچی سے ’مسکراہٹ کے پھول‘ تمام قارئین کے لیے بہت محبت سے بھیجے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہمیشہ مسکراتا رکھے اور جلد از جلد رہائی نصیب کرے۔ شمارہ ۱۱۴۴ پڑھتے ہوئے صبیحہ کہنے لگی کہ آپی خط دیکھیں۔عموما میں رسالے میں سب سے پہلے آمنے سامنے کے سارے نام ضرور پڑتی ہوں لیکن ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی میں نے اپنا خط خود نہیں دیکھا بلکہ دوسروں کے دکھانے پر پڑھا۔ بہت خوشی ہوئی۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ پڑھے بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔ ’دستک‘ میں چچا جان بہت ہی اہم پہلو پر روشنی ڈال رہے تھے کہ صفحہ ہی ختم ہو گیا اور پوری روشنی ہی نہ ڈل سکی۔ ’گھی کے پراٹھے‘ فوزیہ خلیل بہت دکھی کہانی تھی۔ واقعی اس مہنگائی نے تو بے چارے غریبوں کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ پروفیسر محمد اسلم بیگ نے بہت ہی اہم مسئلہ کو بیان کیا بہت دکھ ہوا کہ جن لوگوں کو حاضری نصیب نہیں ہوئی۔ وہ کتنا تڑپتے ہیں اور جن کو یہ عظیم خوشخبری ملتی ہے اور وہ وہاں جاتے ہیں تو ان کو قدر ہی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔ ’کراچی کی لغت‘ صبیحہ عماد ہنستی، مسکراتی، کھلکھلاتی ہوئی تحریر تھی۔ مجھے تو یہ لغت بہت مزے کی لگی۔ ’آم ہی آم ہے‘ اثر جون پوری صاحب کی آموں والی نظم جب بھی پڑھو آم کھانے کا دل کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ’جواہرات سے قیمتی‘ بہت سنبھال کر رکھے کیونکہ ایسے جواہرات روز روز نہیں ملتے۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ کی یہ قسط پڑھ کے تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ ’شیشے کا قیدی‘ بنت اختر بہت زبردست تحریر تھی۔ اللہ تعالیٰ سب کی اس فتنے سے حفاظت فرمائے۔آمنے سامنے‘ میں اس دفعہ کافی رونق لگی ہوئی تھی، کیونکہ میرا خط جو شائع ہوا تھا اور میرا خط سب سے بڑا تھا۔ آپ کے جواب سے بہت خوشی ہوئی۔ ’دستک‘ میں چچا جان کی بات سے میں پورا اتفاق کرتی ہوں۔ ’یہ ہمارا منو نہیں‘ میں بنت شکیل اختر منو کو بہت اچھے طریقے سمجھا رہی تھی۔ ’مومن کی اذان‘ سعد حیدر دل کو سکون دینے والی تحریر تھی۔ ’میر حجاز‘ بھی اس دفعہ والی قسط زبردست تھی۔ ’جو پنگا کرو گے تو‘ اواب شاکر بہت مزاحیہ تحریر تھی۔ ’پاکستان کا پرچم‘ میں سروہا را امبا کر پیارے پرچم کی تاریخ سے پردہ اٹھا رہے تھے۔ ’بچے ہمارے عہد کے‘ بچوں نے تو دادی اماں بے چاری کی ناک میں دم کر دیا۔ (وجیہہ خاتون۔ بخشن خان، چشتیاں)
ج:آج بھی آپ کا خط شائع ہوا ہے تو یقیناً اس بار بھی یہ محفل آپ کو بڑی بارونق لگ رہی ہوگی!
٭دستک’ایک شکوہ‘ واہ مزہ ہی آگیا۔مدیر چاچو ہم سے شکوہ کرتے نظر آئے۔’ قینچی کی طرح‘ تحریر پڑھ کر ہم پر انکشاف ہوا کہ ہماری زبان بھی یونہی چلتی ہے۔ ’تلاش محل‘ بہت اچھی لگی۔ اللہ جی سب کی ماؤں کو صحت و عافیت والی لمبی عمر عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔ ’دو باتیں‘ ختم نبوت کے بارے میںبہت اچھی لگیں۔ ’میر حجاز‘ ہمیشہ کی طرح نرالا تھا۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ میں نہیں پڑھتی۔ ’تو جو چاہے‘ ایک زبردست کہانی تھی۔ ’بچے من کے سچے‘ صالحہ منیر اور مرضیہ عائشہ نے ماشاء اللہ بہت ہی اچھا لکھا۔ ’مسکراہٹ کے پھول‘ نے ہمیں ہنسانے پر مجبور کردیا۔ ’امنے سامنے‘ میں ۱۱ خطوط تھے اور ماشاء اللہ سب کے جواب بھی اچھے تھے۔ (نمرہ طاہر، فاطمہ طاہر۔ کوٹ اسلام)
ج:ہمت کا پہاڑ کیوں نہیں پڑھتیں؟ پڑھا کیجیے، آپ بھی باہمت بنیں گی۔
٭سب سے پہلے القرآن اور الحدیث پڑھ کر اپنے دل کو منور کیا۔ ’مختصر پراثر‘ واقعی پراثر ہوتے ہیں۔ ’مانو کی نو زندگیاں‘ بہت اچھی تحریر تھی۔ بے شک بڑوں کی بات نہ ماننے پر اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ محمد فیصل علی کی کہانی ’مرغیوں کا ہنگامہ‘ زبردست تھی۔ چچا اثر جونپوری صاحب کی نظم ’آم کھاؤں میں جب تک‘ ہمیشہ کی طرح مزہ دے گئی۔ چچا جی آپ کو آم پر ایک تحریر بھی لکھنی چاہیے جس میں آپ اپنی آم کے ساتھ دیوانگی کو بیان کریں۔ ’میر حجاز‘ پڑھ کر علم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ’آمنے سامنے‘ میں اس بار باجیاں نمبر لے گئیں۔ (بنت ملک اشرف۔ گڑھا موڑ)
ج:باجیاں نہیں بچیاں بازی لے گئیں۔
٭ ’الف نمبر‘ کی زبردست آفر نے دل خوش کردیا۔ اللہ اس صدقہ جاریہ کو قبول فرمائے۔ ’نانی اماں اور ببلو‘ تربیتی تحریر تھی، لکھاری کا نام غائب تھا جس کو ہم نے ہلکا مسئلہ سمجھا حالانکہ نام نہ لکھنے کی وجہ سے لکھاری ریکارڈ میں نہ آسکے گا۔ ’مواصلاتی نظام کی تاریخ‘ زبردست معلوماتی تحریر تھی۔ ’کون افضل ہے‘ اور ’حق کی فتح‘ زبردست رہیں۔ حافظ عبدالرزاق خان ایک نام نہاد لکھاری ہیں اور ختم نبوت کے لیے جتنا کام کر رہے ہیں اللہ قبول فرمائے۔ آمین (محمد احمد اسامہ۔ بنوری ٹاؤن، کراچی)
ج:نام نہاد لکھاری؟!۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔ آپ شاید نامور لکھنا چاہتے تھے جلدی میں نام نہاد لکھ گئے۔
٭شمارہ ۱۱۴۲ کا سرورق اچھا تھا۔ آپ اپنی دستک میں من گھڑٹ وظائف کے بجائے رب تعالیٰ سے سیدھے سیدھے دعا مانگنے کا راستہ دکھا رہے تھے۔ بے باک بیسن کی تحریر ہمارے بچپن کی یادیں دلا رہی تھیں۔ میرے میاں بیمار سے رہتے ہیں دعائوں کی درخواست ہے۔
(زوجہ حاجی جاوید۔ احمد آباد، 18 ہزاری، جھنگ)
ج:اللہ تعالیٰ آپ کے سرتاج کو نہایت عافیت کے ساتھ مکمل صحت عطا فرمائے، آمین!
٭شمارہ ۱۱۴۲ بہت ہی اچھا لگا اگر اچھا نہ بھی ہوتا تو ہم کیا کرلیتے زیادہ سے زیادہ یہ کرے کہ صبر کرلیتے ’قرآن و حدیث‘ کے بعد ’دستک‘ میں ’ذو النورین کا وظیفہ‘ پڑھ کر بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ ’انمول غلامی‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی قسمت پر رشک آیا۔ ’مسکراہٹ کے پھولوں‘ نے بہت زیادہ ہنسایا۔ ’ہمت کا پہاڑ‘ ہمیشہ کی طرح انمول نظر آیا۔ ’سیاہ کشمش کا قہوہ‘ نے بہت اچھا سبق دیا۔ ’میر حجاز‘ کی تعریف کے لیے اب تو الفاظ ہی نہیں ملتے۔ ’کل نے کیا بے کل‘ بہت ہی مزے دار کہانی لگی۔ (حور عینا بنت الیاس۔ ٹھل نجیب)
ج:اچھا نہیں ہوتا تو صبر کرنے کے ساتھ ساتھ تبصرے میں یہ لکھ بھی سکتے تھے۔ ہم آپ کی اس رائے کا بھی دل سے پورا احترام کرتے۔
٭٭٭