احمد عالم میواتی
چچا تیز گام کے گھر کے سامنے لگے رش کو دیکھ کر گلو میاں اور پہلوان جی چونک اٹھے اور ان کے چلتے ہوئے قدم رُک گئے۔
’’گلو میاں! یہ لوگ چچا تیز گام کے گھر کے سامنے کیوں جمع ہیں؟‘‘ پہلوان جی کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’مجھے تو معلوم نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔‘‘ گلو میاں نے کہا۔
’’کیوں بھائی شبراتی! یہ چچا تیزگام کے گھر کے سامنے اتنا رش کیوں لگا ہوا ہے؟‘‘
گلو میاں نے چچا تیزگام کے گھر کے سامنے کھڑے ان کے پڑوسی سے پوچھا۔
’’آپ کو نہیں پتا؟‘‘ شبراتی نے حیرت سے اُن دونوں کی طرف دیکھا۔
’’اگر پتا ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتے۔‘‘ پہلوان جی بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
’’حیرت ہے، کمال ہے، تعجب ہے! بلکہ افسوس ہے۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے مگر دوست ہونے کے باوجود آپ کو کچھ معلوم بھی نہیں۔‘‘ شبراتی نے تعجب کا اظہار کیا۔
’’ہم دونوں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ آج ہی واپس آئے ہیں۔ ویسے چچا تیزگام کو ہوا کیا ہے؟‘‘ پہلوان جی نے پوچھا۔
’’بے چارے چچا تیزگام کو ڈینگی بخار ہو گیا ہے۔ یہ سب لوگ اُن کی عیادت کے لیے آئے ہیں۔‘‘ شبراتی نے بتایا۔
’’کیا!‘‘ پہلوان جی اور گلو میاں یک زبان ہو کر بولے۔
کچھ دیربعد پہلوان جی اور گلو میاں چچا تیزگام کے کمرے میں پہنچے تو انھوں نے دیکھا، کمرے کے بالکل درمیان میں بچھے پلنگ پر ایک بڑی سی مچھر دانی لگی ہوئی تھی۔ پلنگ کے چہار اطراف جلتی ہوئی مچھر مار کوائل کا دھواں کمرے میں پھیلا ہوا تھا۔ جیسے ہی گلو میاں اور پہلوان جی کمرے میں داخل ہوئے، دھوئیں سے اُنھیں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ پلنگ کے دائیں طرف جمن دنیا و مافیہا سے بے نیاز سیب کا جوس بنانے میں مشغول تھا۔ اُس کے پاس ہی سیب کی پانچ چھ پیٹیاں رکھی ہوئی تھیں اور بائیں جانب استاد انار کی چھ سات پیٹیاں رکھے انار کا عرق کشید کرنے میں مصروفِ عمل تھا۔ پلنگ کے ساتھ رکھی میز پر پپیتے کے پتوں کا قہوہ تھرماس میں رکھا ہوا تھا اور تھرماس کے ساتھ ہی پینا ڈول کی گولیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ اُس وقت چچا تیز گام پلنگ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں سیب کے جوس کا گلاس جب کہ دُوسرے ہاتھ میں انار کے جوس کا گلاس تھا۔ چچا تیز گام وقفے وقفے سے جوس کی چسکیاں لے رہے تھے۔
’’آئو آئو میرے دوستو! ہم تمھیں ہی یاد کر رہے تھے۔‘‘ چچا تیز گام نے پہلوان جی اور گلو میاں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی تیزگام! ہم تو تمھیں اچھا بھلا چھوڑ کر گئے تھے۔ یہ ڈینگی بخار تمھیں کیسے ہو گیا؟‘‘ پہلوان جی بولے۔
’’ارے بھئی! کیا بتائیں، کل شام ہم صحن میں عروج فاطمہ اور محمود کے ساتھ بیٹھے ان کا ہوم ورک چیک کر رہے تھے کہ اچانک ہمیں اپنے ہاتھ پر چبھن کا احساس ہوا۔ ہم نے دیکھا تو ایک مچھر ہمارے ہاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم صبح اٹھے تو تیز بخار سے پورا بدن تپ رہا تھا۔ سانپ کا ڈسا تو صرف پانی نہیں مانگتا جب کہ ڈینگی مچھر کا کاٹا ہوا تو کچھ بھی نہیں مانگتا۔‘‘
چچا تیز گام اپنی داستانِ ڈینگی سناتے ہوئے بولے۔
’’تو پھر آپ نے کوئی دوا وغیرہ بھی لی ہے یا نہیں؟‘‘ گلو میاں نے پوچھا۔
’’یہ دوا ہی تو ہے۔‘‘چچا تیز گام ہاتھوں میں پکڑے ہوئے سیب اور انار کے جوس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
’’اس کے علاوہ ہم پینا ڈول کی گولیاں بھی کھا رہے ہیں۔‘‘
’’سنا ہے اس ڈینگی بخار میں تو جسم کا ایک ایک جوڑ درد کرتا ہے۔‘‘
عیادت کے لیے آئے ہوئے چچا تیز گام کے پڑوسی شیخ طیب الیاس بولے۔
’’ہاں بھئی واقعی! اسی لیے تو اسے ہڈی توڑ بخار کہا جاتا ہے۔‘‘ شبراتی حلوائی بول اٹھے۔
’’میرا پورا جسم درد کر رہا ہے۔ جمن! اوجمن! استاد! کہاں مر گئے ہو تم دونوں؟ ہمارے ہاتھ پائوں دبائو!‘‘
چچا تیزگام یہ باتیں سن کر چلّائے۔ جمن اور استاد جوس بنانا چھوڑ کر فوراً چچا تیز گام کی طرف لپکے اور انھیں دبانے لگے۔
’’چچا تیزگام آپ پپیتے کے پتوں کا قہوہ بنا کر پئیں۔‘‘ پہلوان جی نے مشورہ دیا۔
’’وہ تو ہم پی ہی رہے ہیں۔ اف! کتنا کڑوا ہوتا ہے پپیتے کے پتوں کا قہوہ۔ ہم تو کریلا اور نیم چڑھا کہا کرتے تھے لیکن پپیتے کے پتوں کا قہوہ پی کر لگتا ہے محاورہ بھی بدلنا پڑے گا،کریلا اور پپیتا چڑھا، اے ہے!ایک منٹ، ایک منٹ خبردار! پہلوان جی اپنی جگہ سے ہلنا مت!‘‘
اچانک چچا تیز گام چلاّ اٹھے اور ایک جھٹکے سے یوں اٹھ بیٹھے جیسے انھیں کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو، پھر انھوں نے ایک زور دار چپت پہلوان جی کی چمکتی ہوئی چندیا پر جڑ دی۔
یہ سب کچھ اتنی تیزی میں ہوا کہ سب ہکا بکا رہ گئے۔ غصے کے مارے پہلوان جی کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
’’چچا! یہ تم نے کیا حرکت کی؟‘‘ پہلوان جی دھاڑے۔
’’اوہو پہلوان جی! آپ تو غصہ کر رہے ہیں، ارے بھائی!آپ کو ہمارا شکریہ ادا کرنا چاہیے، ہم نے آپ کو ڈینگی سے بچا لیا ہے۔‘‘ چچا تیز گام بولے۔
’’ڈینگی سے بچا لیا! کیا مطلب؟‘‘
’’یہ دیکھو! یہ نامراد ڈینگی مچھر تمھاری چندیا پر کاٹ رہا تھا۔ وہ تو شکر ہے ہم نے دیکھ لیا ورنہ تمھاری حالت بھی ہمارے جیسی ہوتی۔‘‘ چچا تیز گام ہاتھ میں پکڑے ہوئے مردہ مچھر کو پہلوان جی کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے بولے۔
’’اوہ تیز گام بھائی! پھر تو واقعی آپ کا شکریہ!‘‘
پہلوان جی اپنی چندیا کو سہلاتے ہوئے بولے۔
’’اچھا بھئی تیز گام اب ہم چلتے ہیں۔ تم آرام کرو اور سیب، انار کا جوس اورپپیتے کے پتوں کا قہوہ پیتے رہو اور پینا ڈول گولی کھاتے رہو، ان شاء اللہ تم چند ہی دنوں میں ٹھیک ہو جائو گے۔‘‘ پہلوان جی اٹھتے ہوئے بولے۔
پھر دونوں وہاں سے چلے گئے۔
چچا تیزگام کو ڈینگی بخار میں مبتلا ہوئے تقریباً ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ اس دوران چچا تیز گام برابر سیب اور انار کے جوس کا استعمال کرتے رہے۔ بیگم پپیتے کا قہوہ بنا کر جب کہ جمن اور استاد سیب اور انار کا جوس بنا بناکرنڈھال ہو چکے تھے۔ ان اقدامات کے باوجود چچا تیزگام کا بخار تھا کہ اترنے میں نہیں آرہا تھا۔ ڈینگی مچھر کی چچا تیزگام پر اتنی دھاک بیٹھ چکی تھی کہ وہ ایک پل کے لیے بھی مچھر دانی سے باہر نہ نکلتے تھے۔
’’ارے بھئی تیزگام! تمھیں ڈینگی بخار ہوا اور تم نے ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو شکر ہے تمھارے محلے کا ایک مریض میرے پاس آیا تو مجھے پتا چلا اور میں فوراً تمھارے پاس دوڑا چلاآیا ہوں۔‘‘
چچا تیزگام کے دوست ڈاکٹر عمر فاروق کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے۔
ڈاکٹر صاحب! کیا بتائیں، اس نگوڑ مارے ڈینگی بخار نے تو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔‘‘ چچا تیزگام بے بسی سے بولے۔
’’تم نے کہیں سے چیک اپ بھی کروایا ہے یا نہیں؟‘‘ ڈاکٹر عمر نے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب چیک اپ کیا کروانا ہے۔ ہمیں معلوم ہے یہ سب کم بخت ڈینگی مچھر کی کارستانی ہے۔‘‘ چچا تیز گام نے کہا۔
’’نہیں بھئی ٹیسٹ تو تمھیں ضرور کروانا چاہیے تھا۔ چلو میں اپنے کلینک سے لڑکے کو بھیجتا ہوں، وہ تمھارے خون کا نمونہ لے جائے گا۔ میں لیبارٹری میں ٹیسٹ کرکے رپورٹ تمھیں بھجوا دوں گا۔‘‘ ڈاکٹر عمر بولے۔
کچھ دیر بعد ایک لڑکا چچا تیزگام کے خون کا نمونہ لینے آگیا۔ شام کو ڈاکٹر عمر رپورٹ ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئے۔
’’یار تیز گام! تمھارے جیسا تیز بندہ نہ دیکھا نہ سنا، بیمار ہونے میں بھی تم اپنی تیزی دکھانے سے بعض نہیں آئے۔‘‘
’’کیوں بھئی! آخر ایسا کیا کر دیا ہم نے؟‘‘ چچا تیز گام بُرا سا منہ بنا کر بولے۔
’’اس رپورٹ میں کیا ہے؟‘‘ چچا تیز گام نے پوچھا۔
’’رپورٹ کے مطابق تمھیں ڈینگی بخار نہیں ہے، تم ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر پینا ڈول کی گولیاں کھاتے رہے ہو۔ یاد رکھو! جب بھی طبیعت خراب ہو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرو اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرو۔‘‘
ڈاکٹر عمر نے یہ بتایا تو چچا تیز گام نے جمن اور استاد کی طرف دیکھا، وہ سیب اور انار کا جوس بنانے میں مصروف تھے۔
’’تم دونوں اب مزید جُوس مت بنائو! ہمیں ڈینگی بخار نہیں ہے، ہم ٹھیک ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر چچا تیزگام نے مچھر دانی بھی اتار دی۔
یہ سن کر جمن اور استاد نے یک زبان ہو کر کہا: ’’یااللہ تیرا شکر ہے!‘‘
دروازے میں کھڑی چچا کی بیگم نے بھی یہ باتیں سن لی تھیں۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ پپیتے کا جوس بنا بنا کر بیگم کی حالت بھی پپیتے جیسی ہی چلی تھی۔