Rekodiq

ہمت کا پہاڑ (۴۱)

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!

راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم

تحریر:رشید احمد منیب

مارشل آرٹ ایک ایسا فن ہے جو انسان کو صحت مند بھی رکھتا ہے اور اسے دلیر بھی بناتاہے۔ کچھ لوگ پیدائشی طورپر بہادر ہوتے ہیں لیکن وہ جنگجو نہیں ہوتے۔ آپ کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو بہادر ہونے کے باوجودلڑائی جھگڑوں سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ انھو ں نے لڑائی سیکھی ہی نہیں ہوتی۔ انھوں نے جنگ کا ماحول دیکھا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ وقت پڑنے پر دشمن کے مقابلے میں سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ زیادہ دیر مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس لڑائی کا ہنر نہیں ہوتا، تکنیک نہیں ہوتی، جوش اور جذبہ ضروری ہے لیکن وہ تکنیک کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ وہ فائٹر عام طورپر لڑائی جیت لیتا ہے جس کے پاس اچھی تیکنیک ہوتی ہے۔ غصے کا شکار فائٹر مار کھا جاتا ہے۔

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہونظر
تیرا زجاج ہونہ سکے گا حریفِ سنگ

مدِ مقابل کو پورا پڑھنا ضروری ہے۔ حریف کے پاس کیا ہنر ہے؟ وہ کیا چال چل سکتاہے؟ اسے جانے بغیر لڑائی میں کامیابی نہیں ہوگی۔ تمھارا شیشہ دشمن کے پتھر کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ ایک مرتبہ میں صدر سے گزری آرہا تھا، بس میں مجھے ایک بندہ دکھائی دیا جس کی باڈی سے لگ رہا تھا کہ وہ جسمانی ریاضت کرتا ہے۔ میں نے سوچا یہ نوجوان شاید کوئی باڈی بلڈر ہوگا، اسے چھیڑنا چاہیے سو میں اسے بار بار گھورنے لگا۔ بلاشبہ یہ ایک بہت غلط اور نامناسب حرکت ہے۔ جب ہم کسی کوگھورتے ہیں تو اسے تکلیف ہوتی ہے۔ وہ پریشان ہوجاتا ہے یا اسے غصہ آجاتا ہے۔ کمزور آدمی ایسے وقت میں دل ہی دل میں غصہ کرتاہے یا گالیاں دیتاہے۔ ذرا تگڑا بندہ ہوتا تو وہ فوراً منہ کو آجاتاہے۔ کوئی فائٹر ہو تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہوجا تاہے۔ میں نے اس تکنیک سے بہت سی لڑائیاں چھیڑی ہیں۔

خیر جب میں نے اس شخص کو بار بار گھورنا شروع کیا تو وہ بھی مجھے گھورنے لگا۔ ایک مرتبہ جب ہم دونوں کی نظریں ٹکرائیں تومیں نے آنکھ سے اسے اشارہ کیا تاکہ اسے غصہ آجائے۔ جواب میں اُس نے مجھے بس سے نیچے اترنے کے لیے کہا۔ میں سمجھ گیا کہ اب یہ اپنی قوت مجھ پر آزمانا چاہتاہے۔ میں ایسے وقت میں بہت خوش ہوتا ہوں جب کوئی لڑائی شروع ہونے والی ہو۔ مجھے لگتاہے کہ میں کوئی نئی چیز سیکھنے والا ہوں، کوئی نیا تجربہ کرنے والا ہوں یا میرے ہنر میں کچھ اضافہ ہونے والاہے۔ پنجاب کالونی کے پاس میں بس سے اتر گیا۔ اُس زمانے میں یہ علاقہ زیادہ آباد نہیں ہوا تھا۔ میں اترا تو میرے پیچھے وہ بھی اتر آیا۔ اب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ اُس کے ہاتھ پیر کافی مضبوط لگ رہے تھے۔ میں نے اُس کے قدموں سے اندازہ لگ لیا کہ وہ بہت نپے تلے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ باڈی بلڈر نہیں تھا، اس کے بازو اور ہاتھ بتا رہے تھے کہ وہ کوئی باکسر ہے اور اچھا باکسر ہے۔ اس کے چہرے پر ابھی تک غصہ ظاہر نہیں ہوا تھا لیکن اس نے آنکھیں سکیڑ لی تھیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے۔ ایسا فائٹر خطرناک ہوتاہے۔ وہ جلدی ہار نہیں مانتا اور ہر مرتبہ نئی چال کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ بھی دراصل آنکھیں سکیڑ کر مجھے پڑھ رہا تھا۔ میں فوراً ڈھیلا سا بن گیا تاکہ اسے میرے متعلق درست اندازہ نہ ہوسکے۔ لڑائی میں پہلی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ حریف اپنے متعلق خوش فہمی اور آپ کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوجائے۔ میں اس کے متعلق ایک غلطی کرچکا تھا۔ اب مجھے دوسری غلطی سے خود کو بچانا تھا، لیکن وہ بہت چالاک انسان تھا۔ اگر وہ مجھ پر اندھا دھند حملہ کرتا تو میں اسے اپنے جال میں پھنسا لیتا یا اپنی تکنیک سے ہوا میں اچھال دیتا، لیکن وہ محتاط انداز میں میری طرف آیا۔

میں سمجھ گیا کہ وہ پینترا بدل کر مجھے ناک آؤٹ کرنا چاہتاہے۔ اب میں نے بھی اسٹانس اختیار کرلیا۔ اب تک ہم دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر اُس نے بھی باکسنگ کا اسٹانس اختیار کرلیا۔ میں نے اسے اشارہ دیا کہ وہ اپنا ہنر مجھ پر آزمائے۔ خود میں نے ارادہ کیا تھا کہ اسے کوئی بڑی ضرب نہیں لگاؤں گا کیوں کہ ایک تو اس کی کوئی غلطی نہیں تھی، چھیڑا میں نے تھا، نیز وہ مجھے بہت شریف انسان لگ رہا تھا۔اس نے ابھی تک زبان سے کوئی لفظ نہیں نکالا تھا اورنہ ہی مجھے کوئی گالی دی تھ،۔ جب کہ میں دوتین مرتبہ اسے غنڈوں کی طرح کے اشارے کرچکا تھا تاکہ وہ مشتعل ہو کر اپنا ہنر اور تکنیک جلد ی ظاہر کردے۔

اس نے جب حملہ کیا تو میں اسے بمشکل ہی روک پایا۔ وہ تو کوئی مرکھنا جوان بیل نکل آیا تھا۔ اب مجھے اپنے تجربے کو استعمال کرکے اسے جواب دینا تھا۔ میں نے اُس کا وار روکا تو اسے بھی بخوبی اندازہ ہوگیا کہ مقابلہ سخت ہوگا، اِس لیے اس نے مجھ پر لگاتار حملوں کا آغاز کردیا اور مجھے جوابی کارروائی کا موقع ہی نہیں دیا۔

میں اس کے ساتھ لڑتے ہوئے اسے پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مجھ پر حاوی نہیں تھا۔ جب حریف حاوی ہو تو انسان بے بسی کی کیفیت میں لڑتا ہے۔ اپنی مرضی کی پوزیشن نہیں لے سکتا۔ میں اپنی مرضی کی پوزیشن لے رہا تھا۔ میں جان بوجھ صرف دفاع کر رہا تھا کیوں کہ میں نے ذہن بنا لیا تھا کہ اسے کاری ضرب نہیں لگاؤں گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس پر حملہ کرنے میں مجھے دشوار ی محسوس ہورہی تھی۔ وہ مسلسل حملے کررہا تھا اور میں اس کے حملوں کو بلاک کرتا ہوا پیچھے ہٹ رہا تھا۔ ہم دونوں سڑک سے پیچھے ہٹ کر ایک گلی میں داخل ہوگئے۔ اُس وقت وہاں بہت کم لوگ تھے لیکن مجمع حسبِ توقع تیزی سے بڑھنے لگا۔

میں اِدھر اُدھر توجہ نہیں سے سکتا تھا،کیوں کہ وہ مجھے شاید باکسنگ سکھانے کی نیت کرکے حملے کرتا ہی چلا جارہا تھا۔ مجھے بس یہ فکر ہور ہی تھی کہ اس کا کوئی پنچ میرے منہ پر ہی نہ پڑ جائے۔ باقی جسم کی مجھے زیادہ فکر نہیں تھی۔ وہ مجھے مسلسل دھکیل رہا تھا۔ جلد ہی ہم دونوں پسینہ پسینہ ہوگئے۔ گلی میں پیچھے جاکر میں ایک جگہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن وہ مجھے کوئی حربہ استعمال کرنے کا موقع نہیں دے رہا تھا۔ تقریباً پچیس منٹ تک وہ مسلسل حملے کرتا رہا اور میں اُس کے حملے روکتا رہا۔ اس دوران میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اُس کی دونوں کلائیاں میرے بلاک کرنے کے نتیجے میں زخمی ہورہی ہیں لیکن وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ میں بھی حیران تھا کہ بس کے اندر سفر کرنے والا عام سا نظرآتا یہ نوجوان تو توپ چیز نکل آیا ہے، بات ہم دونوں نہیں کررہے تھے۔ دونوں کی انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ میں تو یہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنے اچھے فائٹر کو کسی وجہ کے بغیر کوئی نقصان پہنچاؤں لیکن وہ مجھے ہر صورت میں ناک آؤٹ کرنا چاہتا تھا اِس لیے وہ رکے بغیر حملے کرتا جارہا تھا۔ پچیس منٹ کی لڑائی کے بعد اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بھی کسی جن ہی سے ٹکرا گیاہے، اِس لیے اُس نے مختلف انداز اختیار کرلیا۔ اب وہ رک ر ک کر حملے کررہا تھا۔ابھی تک میں نے اس پر اٹیک نہیں کیا تھا۔ میں اٹیک کرتا تو ممکن تھا کہ وہ ناک آؤٹ ہوجاتا لیکن یہ بھی ممکن تھا کہ مجھے ایک آدھ بھاری پنچ لگ جاتا جس کی وجہ سے لڑائی کا ماحول بدل جاتا۔ میں نے سوچا کہ ایک لڑائی ایسی بھی سہی، جس میں اٹیک کے بغیر کام چلایا جائے۔ مزید دس،بارہ منٹ کے بعد اُس نے مجھ پر یکدم بہت شدید حملہ کیا۔ یہ اِس بات کی علامت تھی کہ اس کا اسٹیمنا جواب دے چکا ہے۔ اتنی دیر تک پنچ چلانا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بھی کوئی بہت ڈھیٹ ہڈی تھا لیکن میں بھی اس کے لیے کیکر بن ہوا تھا۔

خیر میں اس کے شدید حملے سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹا تو میرے پاؤں کے نیچے ایک لکڑی آگئی۔ میرا توازن بگڑ گیا۔ اِس دوران میں اُس نے موقع غنیمت جان پر پوری طاقت سے وار کیا۔ میں نیچے جا گرااور یہیں اُس سے غلطی ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اب یہ بندہ بلاک نہیں کر سکے گا۔ اس نے زمین پر گری ہوئی حالت میں مجھے مارنے کی کوشش کی لیکن وہ نوٹ نہیں کرسکا کہ میں نے گرتے ہی اپنی پوزیشن تبدیل کرلی تھی۔

میرے ہاتھ میں وہ لکڑی آگئی تھی جس کی وجہ سے میرا توازن بگڑا تھا، چنانچہ وہ جیسے ہی مجھے مارنے کے لیے آگے ہوا، میں نے پہلو تبدیل کیا اور لکڑی رکھ کر اس کے سرپر ماری۔

وہ بہت تیزی میں تھا۔ اپنے آپ کو بچا نہ سکا اور سر پرلکڑی لگتے ہی میرے برابر میں گر گیا۔ اب میری ریسلنگ یہاں کام آئی۔ میں نے داؤ لگا کر اسے قابو کیا اور دوتین ہلکے پنچ اسے لگائے۔ اُس کے ہوش رخصت ہوگئے۔ میں اسے چھوڑ کر اٹھ گیا۔ اس کے سر سے ہلکا ہلکا خون نکل رہا تھا۔ اب اس میں اٹھنے کی ہمت نہیں رہی تھی۔

میں چاہتا تو طبیعت کے ساتھ اس کی پٹائی کرسکتا تھا لیکن اس کے ساتھ میری کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ میں نے ہی اسے بے چارے شریف آدمی کو چھیڑا تھا۔ وہ مجھے پسند آیا تھا کیوں کہ اُس نے بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا تھا۔ ارد گرد کافی لوگ جمع ہوگئے تھے۔ اُن میں سے دو تین میرے جان پہچان والے بھی تھے۔ میں نے ایک جاننے والے کو اشارے سے بلایا اور اسے کچھ رقم دے کر کہا کہ اس کی اپنی طرف سے تم کچھ خدمت کردینا، اسے کوئی بڑی چوٹ نہیں لگی ہے۔ یہ بہت زبردست فائٹر ہے۔ اسے میرا نام نہ بتانا۔ یہ کہہ کر میں وہاں سے دوڑتا ہوا سڑک کی طرف نکل گیا تاکہ اُس بندے کے حمایتی وہاں نہ پہنچ جائیں۔ ایسے موقعوں پررکنا حماقت ہوتی ہے۔ بات بڑھ جاتی ہے اور ایک نئی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ نوجوان بہت زبردست باکسر تھا۔ اس نے بعد میں پاکستان کے لیے کوئی تمغہ بھی حاصل کیا تھا۔ چار،پانچ سال بعد ایک دن کسی تقریب میں اسے میں نے دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو وہی جوان ہے جو مجھ سے ٹکرایا تھا۔ میرا حلیہ عمر کی وجہ سے کچھ بدل چکا تھا اس لیے وہ مجھ نہ پہچان سکا، وہ بہت ادب کے ساتھ مجھ سے ملا۔ کہنے لگا کہ میں آپ کا بہت عرصے سے فین ہوں۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ بچو! اُس دن تم مجھے پہچان لیتے توآج کہانی مختلف ہوتی۔ تم سب کو بتار ہے ہوتے کہ میں نے انعام اللہ خان کے ساتھ چالیس منٹ کی فائٹ کی تھی۔ (جاری ہے)

٭٭٭