Photo : FreePik
کلیم چغتائی
آج دلاور کو اپنے گھر والے بہت یاد آرہے تھے۔ وہ سخت سردی میں باہر سڑک پر نکل آیا۔ اس نے پائوں میں لمبے بوٹ پہنے ہوئے تھے۔ کانوں کو مفلر سے لپیٹ رکھاتھا اور ایک لمبا سا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ ناجانے اس کا دل کیوں جما دینے والے موسم میں چہل قدمی پر کررہاتھا؟
دلاور کا تعلق صوبہ سرحد کے ایک دور دراز قصبے سے تھا۔ اس کی ایک بوڑھی والدہ تھی، دو چھوٹے چھوٹے بھائی اور ایک بہن تھی۔ گھر کاواحد سہارا دلاور ہی تھا، اسی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کے لیے روزی کمانے کے لیے پچھلے تین سال سے اسلام آباد میں تھا۔یہاں وہ ایک ہوٹل میں چوکیدار تھا۔وہ اپنی قلیل سی تنخواہ میں سے بہت تھوڑا اپنے لیے رکھتا تھا اور باقی سب اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا تھا، کبھی کبھی اسے اپنے گھر والے بہت یاد آنے لگتے تھے اور وہ باہر سڑک پر نکل آتا تھا اور اپنے مستقبل کے بارے میںسوچنے لگتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اس کے مقدر میں ہمیشہ مزدوری کرنااور گھر سے دور رہنا ہی لکھا ہوا ہے؟ کیا وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کبھی نہیں رہ سکے گا؟
یہ سوچتا ہوا آج بھی وہ یوں ہی سڑک پر چلا جارہا تھا۔
وہ نجانے کب تک یوں ہی چلتا رہا کہ سرخ رنگ کی ایک خوبصورت کار اس کے برابر میں آکر رک گئی۔ دلاور نے اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن کار کا دروازہ کھلا تو ایک خوش پوش خوبصورت نوجوان ہنستا ہوا باہر نکلا اور دلاور کی طرف بڑھتے ہوئے بولا:
’’آپ نے کہاں جانا ہے؟‘‘
’’بس یوں ہی آوارہ گردی کررہا تھا، جانا میں نے کہاں ہے۔‘‘
دلاور نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
’’تمھیں دیکھ کر مجھے وہ وقت یاد آرہا ہے جب میں بھی تمھاری طرح کمائی کرنے اسلام آباد میں آیا تھا، مجھے بھی گھر والوں کی یاد ستاتی تھی تومیں بھی تمھاری طرح سڑکوں پر آوارہ گردی کرکے دل بہلایا کرتا تھا۔‘‘
’’لیکن! تمھارے پاس تو اتنی قیمتی کار ہے۔‘‘
دلاور نے حیرت سے اس کی کار کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جب میں یہاں آیا تو خالی ہاتھ تھا، پھر میں نے محنت کر کے نہ صرف کار خریدلی بلکہ اب میر ی اپنی کوٹھی بھی ہے۔‘‘اس نوجوان نے کہا۔
’’مجھے بھی وہ طریقہ بتائو جس پرعمل کرکے تم اتنے دولت مند بن گئے ہو۔‘‘
دلاور نے بے صبری سے کہا۔
’’دیکھو میرا نام اجمل خان ہے۔ یہ میرا کارڈ ہے، اس پر میرے گھر کا پتا لکھا ہوا ہے تم وہاں آجانا پھر تفصیل سے بات چیت کریں گے۔‘‘
اجمل نے اپنا وزیٹنگ کارڈ اسے دیتے ہوئے کہا۔
دلاور خوشی خوشی واپس ہوٹل میں آگیا۔ رات کو ڈیوٹی کے دوران وہ اجمل اور اس کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ تصورات کی دنیا میں وہ بھی اپنے آپ کو ایک لمبی سی کار میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا اور نوکر اس کی شاندار کوٹھی کا گیٹ کھولے کھڑا تھا، جیسے تیسے کرکے دلاور نے رات گزاری اور صبح سویرے وہ اجمل خان کے وزیٹنگ کارڈ پر درج پتے پر پہنچ گیا۔
اس نے بیل دی تو ایک مسلح چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ دلاور نے اپنا تعارف اس چوکیدار سے کروایا تو وہ اسے ایک وسیع اور قیمتی سازوسامان سے آراستہ ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ اسے بیٹھنے کا کہہ کر خودوہ اجمل خان کو بلانے چلا گیا۔ شاید اجمل خان نے اس کو پہلے ہی دلاور کے آنے کا بتادیاتھا۔ دلاور حیرت کے سمندر میں غرق ڈرائنگ روم کی ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ہر چیز سے اجمل خان کی امارت ٹپک رہی تھی۔
دلاور نے ابھی پوری طرح ڈرائنگ روم نہیں دیکھا تھا کہ اجمل خان قیمتی سوٹ زیب تن کیے ہوئے اندر داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ایسی رعونت اور جلال تھا کہ دلاور بے اختیار اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔
اجمل خان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بیٹھنے کے لیے کہا اور خود بھی اس کے قریب ہی بیٹھ گیا اور رسمی کلمات کے تبادلے کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے بولا:’’مسٹر دلاور آپ میرے ساتھ کام کریں گے۔‘‘
’’لیکن خان صاحب میں اَن پڑھ ہوں، پتا نہیں آپ کاکام کس طرح کا ہے؟‘‘
دلاور نے کہا۔
’’میرا کام؟ ہاں! تم اسے ایک قسم کی کوریئر سروس کہہ سکتے ہو۔ ہم لوگوں کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں اور وہ ہمیں اس کا بھاری معاوضہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن وہ سامان کیسا ہوتا ہے؟‘‘
دلاور نے پوچھا۔
’’دیکھو دلاور سامان کیسا ہے یا کیا ہے؟ تمھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ کرنسی نوٹ ہوسکتے ہیں، قیمتی دستاویزات ہوسکتی ہیں، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات ہوسکتے ہیں، غرض کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو اسے صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہوتا ہے۔ اب تم سوچ لو اگرتم اسی طرح گھر سے دور سسک سسک کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تو تمھاری مرضی اور اگر میری طرح امیر بننا چاہتے ہو تو کل سے ہی میرے ساتھ کام شروع کردو۔‘‘
اجمل خان نے کہا۔
دلاور کو احساس ہوگیا تھا کہ یہ کسی قسم کا کوئی غیر قانونی کام ہے لیکن وہ تو ہرصورت میں اپنا مستقبل روشن کرنا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا چلو دو چار سال یہ کام کرکے جب اس کے پاس کافی پیسے ہوجائیں گے تو وہ یہ کام چھوڑ دے گا اور کوئی اچھا سا کاروبار شروع کرلے گا۔ یہی سوچتے ہوئے اس نے کام کرنے کی حامی بھرلی۔ اجمل نے اسے پچاس ہزار روپے پیشگی ادا کردیے اور اگلی صبح اسے زیر وپوائنٹ پرپہنچ جانے کے لیے کہا،کیونکہ اسے وہاں سے سامان لے کر لاہور روانہ ہونا تھا۔
دلاور وہاں سے سیدھا اپنے ہوٹل پہنچا اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ہوٹل میں رات گزارنے کے لیے کمرہ بک کروا لیا۔ اس رات اس نے خوب مزیدار کھانا کھایا پھر نرم وگداز بستر پر لمبی تان کر سو گیا۔
صبح اٹھ کر اس نے بڑی شان سے ویٹر کو اپنے کمرے میں بلایا اور پرتکلف ناشتے کاآرڈر دیا۔ خوب ڈٹ کر ناشتہ کرنے کے بعد وہ نیچے کائونٹر پرآیا اور
تمام واجبات ادا کرکے ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر زیروپوائنٹ پہنچ گیا۔
یہاں اجمل خان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیاہ رنگت کی ایک کار آکر رکی۔ اس میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلا اور ایک بھاری بھرکم بریف کیس دلاور کے حوالے کردیا۔ دلاور کو یہ بریف کیس لاہور میں ایک سیٹھ کو دینا تھا۔ اجمل خان نے خاص طور پر یہ تاکید کی تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی کسی بڑی بس میں سفر کرے، ورنہ جیب بھاری ہونے کی وجہ سے دلاور کا تو بذریعہ جہاز لاہور جانے کا پروگرام تھا۔خیر وہ زیروپوائنٹ سے ٹیکسی میں راولپنڈی بس اسٹینڈ پہنچا اور وہاں سے لاہور جانے والی بس میں سوار ہوگیا۔
دوران سفر وہ بہت خوش تھا۔ جب سے پیسے ملے تھے اس نے خوب جی بھر کر خرچ کیا تھا لیکن اب بھی اس کی جیب میںچالیسہزار سے زیادہ نوٹ بچے ہوئے تھے۔
اسی وقت ڈرائیور نے ٹیپ چلا دی۔ یہ وہی ٹیپ ریکارڈ ہے جس پر بسوں، ویگنوں میں اکثر بے ہودہ گانے چلتے رہتے ہیں، لیکن ڈرائیور نے تلاوت کی کیسٹ لگائی تھی، شاید ابھی صبح کا وقت تھا یا ڈرائیور ہی کسی دوسری قسم کا تھا۔ یہ کیسٹ باترجمہ تلاوت کی کیسٹ تھی۔
وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ!
جب قاری صاحب نے یہ آیت پڑھ کر اس کا ترجمہ کیا تو دلاور لرز کر رہ گیا۔ آیت کا ترجمہ تھا:
’’بری تدبیر اس کے کرنے والے پر ہی الٹ دی جاتی ہے۔‘‘